تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ایک ذلیل و قلیل قوم ہے۔ رات کی تاریکی میں سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے ابوسفیان کی آواز پہچانی لی اور وہ اسی خیال سے نکلے تھے کہ کوئی مکہ با اثر آدمی ملے تو اس کو خطرے سے آگاہ کر کے ترغیب دوں کہ اب مسلمان ہو جانا ہی تمہارے لیے مناسب ہے‘ انہوں نے فوراً ابوسفیان کو آواز دی اور کہا کہ یہ لشکر سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا لشکر ہے‘ اور صبح مکہ پر حملہ آور ہو گا‘ ابوسفیان کے ہوش و حواس اڑ گئے‘ اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے قریب آ کر کہا کہ پھر اب کیا تدبیر کریں‘ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم میرے پیچھے خچر پر سوار ہو جائو میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس لیے چلتا ہوں وہیں تم کو امان مل سکے گی‘ ابوسفیان بلاتامل خچر پر سوار ہو گیا اور اس کے دونوں ہمراہی مکہ کی جانب چلے گئے۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ ابو سفیان رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے سوار کئے ہوئے جب اسلامی لشکر گاہ کے قریب لوٹے تو سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ راستے میں ملے‘ انہوں نے ابوسفیان کو پہچان لیا اور قتل کرنا چاہا‘ لیکن سیدنا عباس رضی اللہ عنہ خچر کو مہمیز کر کے تیز رفتاری سے نکل گئے‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پیدل تھے وہ بھی پیچھے پیچھے تلوار لیے ہوئے آئے‘ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں پہلے پہنچے‘ ان کے بعد ہی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی پہنچ گئے‘ اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! یہ کافر بلاشرط قابو میں آ گیا ہے‘ حکم دیجئے کہ اس کی گردن اڑا دوں‘ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں ابوسفیان کو امان دے چکا ہوں‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پھر اجازت چاہی تو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ عمر رضی اللہ عنہ ! اگر تمہارے خاندان کا کوئی شخص ہوتا تو تم کو اس کے قتل میں اتنا اصرار نہ ہوتا‘ اور اتنی بے صبری نہ کرتے‘ سیدنا فاروق رضی اللہ عنہ نے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کو جواب دیا کہ عباس رضی اللہ عنہ مجھ کو تمہارے مسلمان ہونے کی اس قدر خوشی حال ہے کہ اپنے باپ کے مسلمان ہونے کی بھی اس قدر خوشی نہ ہوتی‘ کیونکہ میں جانتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تمہارے مسلمان ہونے کے خواہاں تھے‘ ان دونوں حضرات میں اس قسم کی باتیں ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا کہ اچھا ابوسفیان کو ایک رات کی مہلت دی جاتی ہے‘ اور پھر سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ابوسفیان کو تم ہی اپنے خیمہ میں رکھو‘ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے ابوسفیان کو رات بھر اپنے پاس رکھا‘ صبح کو ابوسفیان نے مسلمان ہونے کا فیصلہ کر لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کر لیا۔۱؎ ۱؎ صحیحبخاریکتابالمغازیحدیث۴۲۸۰۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی عزت افزائی سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ ابوسفیان ایک جاہ پسند آدمی ہیں‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم انہیں کوئی خاص عزت بخشیں‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اچھا جو شخص خانہ کعبہ میں پناہ لے گا اس کو امان دی جائے گی‘۱؎ اور جو شخص ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے گھر میں پناہ لے گا اس کو بھی امان دی جائے گی‘ اور جو شخص اپنے گھر کا دروازہ بند کر کے بیٹھ رہے گا وہ بھی امان میں رہے گا‘ اور جو شخص بغیر ہتھیار لگائے راہ میں ملے گا