تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
لکھ لو مجھ کو منظور ہوں گی‘ انہوں نے صرف اپنی اور اپنے ہمراہیوں کی جان کی امان چاہی‘ مال وغیرہ مطلق طلب نہ کیا‘ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے فوراً ان کی شرط کو منظور کر لیا‘ اس کے بعد انہوں نے اور ان کے ہمراہیوں نے بھی آ کر بیعت کر لی۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے بھی بیعت سے انکار کیا‘ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے اصرار ہوا تو سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ حسین رضی اللہ عنہ سے اصرار نہ کریں‘ آپ کی بیعت کرنے کے مقابلہ میں ان کو اپنا فخر عزیز تر ہے‘ یہ سن کر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ خاموش ہو گئے لیکن بعد میں پھر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے بھی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے بیعت کر لی‘ اس سفر میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہمراہ عمروبن العاص رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے‘ انہوں نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ حسن رضی اللہ عنہ سے فرمائش کیجئے کہ وہ مجمع عام کے رو برو ایک خطبہ بیان فرمائیں‘ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس رائے کو پسند کیا‘ اور ان کی درخواست کے موافق سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے خطبہ ارشاد فرمایا کہ۔ مسلمانوں! میں فتنے کو بہت مکروہ رکھتا ہوں‘ اپنے جد امجد کی امت میں فساد اور فتنے کو دور کرنے اور مسلمانوں کی جان و مال کو محفوظ رکھنے کے لیے میں نے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کی اور ان کو امیر اور خلیفہ تسلیم کیا۔ اگر امارت اور خلافت ان کا حق تھا‘ تو ان کو پہنچ گیا اور اگر یہ میرا حق تھا‘ تو میں نے ان کو بخش دیا۔ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ و سلم ) کی پیشگوئی اس کے بعد صلح کے تمام مدارج طے ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی وہ پیشگوئی بھی جو سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی نسبت آپ نے ارشاد فرمائی تھی پوری ہو گئی کہ ’’میرا یہ بیٹا سردار ہے اور خدائے تعالیٰ اس کے ذریعہ سے مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح کرا دے گا‘‘ ۱؎سیدنا حسن رضی اللہ عنہ منبر سے اترے تو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بیساختہ ان سے مخاطب ہو کر کہا۔ کہ ابو محمد! آپ نے آج اس قسم کی جواں مردی اور بہادری دکھائی ہے‘ کہ ایسی جواں مردی اور بہادری آج تک کوئی بھی نہ دکھا سکا۔ یہ صلح ۴۱ ھ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شہادت سے چھ ماہ بعد وقوع پذیر ہوئی‘ اس لیے ۴۱ ھ کو عام الجماعت کے نام سے موسوم کیا گیا۔ بعد تکمیل صلح سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کوفہ سے دمشق کی جانب روانہ ہوئے‘ اور جب تک سیدنا حسن رضی اللہ عنہ زندہ رہے‘ ان کے ساتھ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بڑی تکریم و تعظیم کا برتائو کیا اور برابر ان کی خدمت میں حسب قرار داد صلح نامہ روپیہ بھیجتے‘ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے کوفہ سے واپس چلے جانے کے بعد اہل کوفہ نے آپس میں یہ چرچا کرنا شروع کیا کہ یہ صوبہ اہواز کا خراج تو ہمارا مال غنیمت ہے‘ ہم سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو ہرگز نہ لینے دیں گے‘ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے سن کر اہل کوفہ کو جمع کیا اور ان کے سامنے تقریر کی کہ اے اہل عراق میں تم سے بار بار درگذر کر چکا ہوں‘ تم نے میرے باپ کو شہید کیا‘ میرا گھر بار لوٹا‘ مجھے نیزہ مار کر زخمی کیا‘ تم دو قسم کے مقتولین کو یاد رکھتے ہو ایک وہ لوگ جو صفین میں مقتول ہوئے‘ دوسرے وہ جو نہروان کے مقتولین کا معاوضہ طلب