تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سچے ہو تو میرے ساتھ میدان میں چلو‘ اور میرے عزیز و اقارب بھی میرے ہمراہ ہوں‘ دونوں گروہ الگ الگ بیٹھ کر کہیں کہ جو جھوٹا ہو اس پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہو‘ یہ سن کر وہ خاموش ہو گئے۔ دوسرے روز صبح کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم علی رضی اللہ عنہ ‘ فاطمہ رضی اللہ عنھا ‘ حسن رضی اللہ عنہ ‘ حسین رضی اللہ عنہ کو ہمراہ لے کر باہر نکلے اور ان عیسائیوں سے کہا کہ جب میں یہ دعا کروں کہ ہم میں جو جھوٹا ہو اس پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہو تو تم آمین کہنا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ مستعدی دیکھ کر عیسائی خوف زدہ ہو کر کہنے لگے ہم مباہلہ نہیں کرتے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ مباہلہ نہیں کرتے تو اسلام قبول کر لو اور سب مسلمانوں کی طرح ہو جائو‘ انہوں نے کہا کہ ہم کو یہ بھی منظور نہیں‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تو پھر ہم کو جزیہ دو یا ہم سے جنگ کرو‘ انہوں نے کہا کہ ہم کو جزیہ دینا منظور ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اگر یہ لوگ مباہلہ کرتے تو ان کا بال اور ناخن تک نہ بچتا۔ چلتے وقت عیسائیوں نے ایک امین کا تقرر اپنے لیے چاہا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو ان کے ہمراہ کر دیا‘۱؎ چند روز کے بعد نجران کے قریباً تمام عیسائی مسلمان ہو گئے۔ قریباً تمام قبائل یمن اور ملک یمن کا بادشاہ باذان مسلمان ہو چکا تھا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تمام ملک ۱؎ صحیحبخاریکتابالمغازیحدیث۴۳۸۰۔صحیحمسلمکتابالفضائلبابفضائلعلی رضی اللہ عنہ ۔ یمن کی حکومت باذان ہی کے پاس رکھی تھی‘ اسی سال باذان کا انتقال ہوا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے باذان کے انتقال کے بعد شہر بن با ذان‘ عامر رضی اللہ عنہ بن شہر ہمدانی‘ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ اشعری‘ علی بن رضی اللہ عنہ امیہ‘ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ وغیرہ کو ملک یمن کے ایک ایک حصہ میں حاکم مقرر فرمایا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو معہ دوسرے چند صحابیوں کے یمن کی طرف بھیجا اور تاکید کی کہ جب تک کوئی مقابلہ کی ابتداء نہ کرے تم ہتھیار نہ اٹھانا‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو ملک یمن سے زکو ۃ و صدقات وصول کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔۱؎ ان واقعات کے بعد ذیقعدہ کا مہینہ آیا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ذیقعدہ ۱۰ ھ کو مدینہ منورہ سے حج بیت اللہ کے لیے روانہ ہوئے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ مہاجرین و انصار اور رئوساء عرب کی ایک جماعت اور قربانی کے سو اونٹ تھے‘ مکہ میں اتوار کے روز ۴ ذی الحجہ کو داخل ہوئے‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی جو یمن کی طرف صدقات جمع کرنے کو گئے ہوئے تھے مکہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے آ ملے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ حج ادا کیا۔۲؎ خطبتہ الوداع آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس مرتبہ لوگوں کو مناسک حج کی تعلیم دی اور عرفات میں ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس میں حمد و ثناء کے بعد فرمایا کہ لوگو! میری باتوں کو سنو‘ کیونکہ میں آئندہ سال یا اس کے بعد اس مقام پر تم سے ملنے کا یقین نہیں رکھتاہوں‘ لوگو! جیسا کہ یہ دن اور مہینہ حرام ہے‘ اسی طرح ایک دوسرے کے جان و مال تم پر