تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جنگ احد میں تیراندازوں کی غلطی اور حکم کی تعمیل میں کوتاہی کرنے کے سبب مسلمانوں کو صدمہ پہنچا اور پریشانی کا سامناہوا‘ اس جنگ کی نسبت عام طور پر مشہور ہے کہ مسلمانوں کو شکست ہوئی لیکن یہ بہت بڑی غلطی ہے۔ مسلمانوں نے کفار کو اپنے سامنے سے بھگا دیا تھا‘ اور کفار شکست پا چکے تھے بعد میں وہ پھر حملہ آور ہو سکے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور مسلمانوں کے لشکر نے میدان نہیں چھوڑا‘ کفار ہی نے جنگ کو آئندہ سال پر ملتوی کیا اور مسلمانوں نے اس التوا کو منظور کرلیا‘ میدان سے اول کفار مکہ کی طرف روانہ ہوئے بعد میں مسلمان وہاں سے مدینہ کی طرف چلے‘ حمراء الاسد میں مسلمانوں کے آنے کی خبر سن کرکفار ہی سراسیمہ ہو کر بھاگے‘ ہاں اس میں شک نہیں کہ مسلمان کفار مقتولین کی نسبت زیادہ شہید ہوئے اور یہ میدان جنگ کے معمولی واقعات ہیں‘ اس لڑائی کے بعد ماہ ذی الحجہ تک اس سال میں اور کوئی قابل تذکرہ واقعہ نہیں ہوا‘ اسی سال نصف رمضان المبارک کے قریب سیدنا حسن ابن علی رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے‘ جنگ احد میں مسلمانوں کو چشم زخم پہنچنے سے مدینہ کے منافق اور یہودی بہت خوش ہوئے اور ان کی جراتیں بڑھ گئیں مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم در گذری سے کام لیتے رہے ۱؎ سیرت ابن ہشام‘ ص ۳۸۸ و ۳۸۹۔ ہجرت کا چوتھا سال بدعہدی اور شرارت یکم محرم ۴ ہجری کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس خبر پہنچی کہ مقام قطن میں قبیلہ بنی اسد کے بہت سے مفسد جمع ہو گئے ہیں اور مسلمانوں پر حملہ کا قصد رکھتے ہیں‘ طلحہ بن خویلد اور سلمہ بن خویلد ان کے سردار ہیں‘ اس خبر کو سن کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ابوسلمہ مخزومی کو ڈیڑھ سو مسلمانوں کی جمعیت کے ساتھ روانہ کیا کہ ان شریروں کی گوشمالی کریں جب سلمہ رضی اللہ عنہ قطن میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ دشمن مسلمانوں کے آنے کی خبر سن کر پہلے ہی فرار ہو گیا‘ دشمن کے کچھ مویشی مسلمانوں کے ہاتھ آئے‘ ان کو لے کر ابو سلمہ رضی اللہ عنہ مدینہ واپس آئے۔ وادی عرفات کے نزدیک عرنہ ایک مقام ہے وہاں سفیان بن خالد ہذلی ایک سخت کافر رہتا تھا اس نے کفار کو جمع کرنے اور مدینہ پر حملہ آور ہونے کی تیاریاں شروع کیں‘ اس کی ان تیاریوں کی خبریں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بہ تواتر پہنچنی شروع ہوئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ۵ محرم ۳ ھ کو سفیان بن خالد ہذلی کی جانب عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کو روانہ کیا‘ عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ دن کو چھپتے رات کو چلتے ہوئے مقام عرنہ پہنچے‘ وہاں پہنچ کر کسی ترکیب سے اس کا سر کاٹ لیا‘ اور وہ سر لے کر صاف بچ کر نکل آئے‘ ۱؎اٹھارہ دن کے بعد ۲۳ محرم ۴ ھ کو مدینے پہنچے اور وہ