تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
گھر کے اندر تشریف لائے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی صاحبزادی سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنھا پانی لے کر اٹھیں‘ وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا سردھلاتی جاتی تھیں اور زارو قطار رو رہی تھیں‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بیٹی رئوومت اللہ تعالیٰ تعالی تمہارے باپ کی خود حفاظت کرے گا۔۲؎ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم خانہ کعبہ میں گئے‘ وہاں بہت سے مشرک بیٹھے ہوئے تھے‘ ابوجہل نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھ کر تمسخرانہ انداز میں کہا عبد مناف والو! دیکھو تمہارا نبی آ گیا‘ عتبہ بن ربیعہ نے کہا ہمیں کیا انکار ہے کوئی نبی بن بیٹھے‘ کوئی فرشتہ بن جائے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عتبہ کی طرف مخاطب ہو کر ۱؎ صحیحبخاری۔کتابمناقبالانصارحدیث۳۹۰۵۔سیرت ابن ہشام ص ۱۸۳‘۱۸۴۔ ۲؎ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بھی فرمایا کہ جب تک ابوطالب زندہ تھے‘ قریش مجھے کوئی تکلیف نہ دے سکے۔ (سیرت ابن ہشام‘ ص ۲۰۵) کہا تو نے کبھی بھی اللہ تعالیٰ و رسول کی حمایت نہ کی اور اپنی ضد پر اڑا رہا‘ پھر ابوجہل سے کہا کہ تیرے لیے وہ وقت قریب آ رہا ہے کہ تو ہنسے گا کم اور روئے گا زیادہ‘ پھر تمام مشرکین سے کہا کہ وہ وقت قریب آ رہا ہے کہ تم جس دین کا انکار کر رہے ہو اسی میں داخل ہو جائو گے۔ سفر طائف غرض قریش کی ضد دم بدم ترقی کرتی گئی‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے شعب ابوطالب ہی کے زمانے سے قریش کے سوا باہر کے لوگوں میں جب کہ وہ حج کے لئے مکہ آتے تھے تبلیغ کا کام شروع کر دیا تھا‘ جس کا کوئی معتدبہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا تھا‘ اب مکہ والوں کو حد سے زیادہ سخت اور اسلام سے متنفر دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارادہ کیا تھا کہ طائف والوں کو دعوت اسلام دیں۔ طائف مکہ سے تین منزل یعنی ساٹھ میل کے فاصلہ ۱؎ پر مکہ ہی کے برابر بڑا شہر تھا‘ وہاں ثقیف آباد تھے جو لات کی پرستش کرتے تھے‘ وہاں لات کا مندر تھا اور سارا شہر اسی مندر کا پجاری تھا ۱۰ نبوی شوال کے مہینے میں یعنی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا کی وفات کے ایک مہینہ بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم زید بن حارثہ کو ہمراہ لے کر پیدل طائف میں پہنچے‘ وہاں پہنچنے سے پہلے راستہ میں اول آپ صلی اللہ علیہ و سلم قبیلہ بنی بکر میں تشریف لے گئے‘ جب ان کو بھی مکہ والوں کا ساتھی اور ہم خیال پایا تو قوم قحطان کے پاس گئے ان کو بھی سنگ دلی میں قریش کے ہمسر پایا تو طائف میں پہنچے۔ طائف میں داخل ہو کر اول آپ صلی اللہ علیہ و سلم وہاں کے رئوساء سے ملے‘ طائف کے سرداروں میں عبدیا لیل بن عمرو بن عمیر اور اس کے دونوں بھائی مسعود و حبیب سب سے زیادہ با اثر اور بنی ثقیف کے رئیس سمجھے جاتے تھے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم تینوں سے ملے اور اسلام کی طرف دعوت دی‘ یہ بڑے مغرور و متکبر تھے ان میں سے ایک نے کہا کہ اگر تجھ کو اللہ تعالیٰ اپنا رسول بناتا تو تو یوں ہی پیدل جوتیاں چٹخاتا پھرتا؟ دوسرے نے کہا کیا اللہ تعالیٰ کو کوئی اورآدمی نہ ملا جو تجھ کو رسول بنایا۔ لولانزلھذالقرانعلیرجلمنالقریتینعظیم