تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کہ ہم کو یہاں سے اب کسی ایسے شہر کی جانب چلنا چاہیے جہاں ہم اللہ تعالیٰ کے حکم کو جاری کر سکیں کیونکہ ہم اہل حق ہیں‘ شریح نے کہا کہ ہم کو مدائن کی طرف جانا چاہیے‘ کیونکہ اس پر ہمارا قبضہ بڑی آسانی سے ہو جائے گا اور وہاں کی تھوڑی سی فوج کو ہم بآسانی مغلوب کر سکیں گے‘ وہیں ہم اپنے ان بھائیوں کو بلوا لیں گے جو بصرہ میں موجود ہیں‘ زید بن حصین نے کہا کہ اگر ہم سب کے سب مجتمع ہو کر نکلے تو عجب نہیں ہمارا تعاقب کیا جائے‘ لہذا مناسب یہ ہے کہ دو دو‘ چار چار‘ دس دس کی ٹولیوں میں یہاں سے نکلیں اور اول مدائن نہیں بلکہ نہروان کی جانب چلیں اور وہیں اپنے بھائیوں کو خط بھیج کر بصرہ سے بلوا لیں‘ اس آخری رائے کو سب نے پسند کیا۔ قرار داد کے موافق یہ لوگ متفقہ طور پر چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں کوفہ سے نکلے‘ کوفہ سے نکل کر انہوں نے خوارج بصرہ کو لکھا کہ تم بھی بصرہ سے نکلو اور ہم سے نہروان میں آملو‘ بصرہ سے مشعر بن فدکی تیمی پانچ سو خوارج کی جمعیت لے کر نکلا۔ جب کوفہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا کہ خوارج کی جمعیت کثیر کوفہ سے نکل کر مدائن کی طرف روانہ ہوئی ہے تو انہوں مدائن کے عامل سعد بن مسعود کے پاس تیز رو ایلچی بھیجا‘ کہ خوارج کی روک تھام کریں اور ان سے غافل نہ رہیں‘ سعد بن مسعود نے اپنے بھتیجے کو اپنا قائم مقام بنا کر مدائن میں چھوڑا اور خود فوج لے کر خوارج کے روکنے کو روانہ ہوئے‘ راستے میں خوارج کی ایک جمعیت سے مقام کرج میں مقابلہ ہوا شام تک لڑائی ہوتی رہی‘ رات کی تاریکی میں خوارج دجلہ کو عبور کر گئے۔ اس کے بعد بصرہ کے خوارج پہنچ گئے‘ ان سے بھی مقابلہ و مقاتلہ ہوا‘ وہ بھی دجلہ کو عبور کرنے اور مقام نہروان میں اپنے بھائیوں سے جا ملنے میں کامیاب ہو گئے‘ نہروان میں خوارج نے اپنی جمعیت کو خوب مضبوط اور منظم کر لیا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور ان کے تابعین پر کفر کا فتویٰ لگا کر ان لوگوں کو جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو حق پر تسلیم کرتے تھے قتل کرنا شروع کیا‘ ان کی جمعیت روز بروز ترقی کرتی گئی‘ یہاں تک کہ ان کی تعداد ۲۵ ہزار تک پہنچ گئی۔ جنگ نہروان سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے خوارج کے کوفہ سے خارج ہونے کے بعد اہل کوفہ کو جنگ شام کے لیے ترغیب دی‘ انہوں نے یہی مقدم سمجھا تھا کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو ملک شام سے بے دخل کیا جائے‘ خوارج کے فتنہ کو وہ زیادہ اہم اور شام کی مہم پر مقدم نہیں کرنا چاہتے تھے‘ چنانچہ انہوں نے بصرہ کی جانب عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس خط بھیجا کہ جنگ شام کے لیے جس قدر فوج ممکن ہو روانہ کر دو‘ بصرہ سے بھی خوارج چونکہ خارج ہو چکے تھے لہذا ان کے اس اخراج کو غنیمت سمجھا گیا کہ نہ یہ لوگ شہر میں ہوں گے نہ فساد برپا کریں گے‘ بصرہ میں اس وقت ساٹھ ہزار جنگجو موجود تھے‘ لیکن جب عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا خط لوگوں کو سنایا اور شام پر حملہ آور ہونے کے لیے ترغیب دی تو بڑی مشکل سے صرف تین ہزار ایک سو آدمی جانے کے لیے تیار ہوئے‘ باقی سب نے اس کان سنا اور اس کان اڑا دیا۔ کوفہ میں بھی لوگوں پر سرد مہری چھائی ہوئی تھی‘ جب بصرہ کی یہ تین ہزار فوج حارثہ بن قدامہ کی سرداری میں کوفہ پہنچی تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اہل کوفہ کو جمع