تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
دیا تو وہ ناراض و بد دل ہو کر مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ کی طرف چلے گئے۔ عمال کا عزل و نصب سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بصرہ پر عثمان بن حنیف کو‘ کوفہ پر عمارہ بن شہاب کو‘ یمن پر عبیداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو‘ مصر پر قیس بن سعد کو‘ شام پر سہل بن حنیف کو‘ عامل و والی مقرر کر کے روانہ کیا۔ عثمان بن حنیف جب بصرہ پہنچے تو بعض لوگوں نے ان کو اپنا عامل و حاکم تسلیم کر کے ان کی اطاعت قبول کر لی‘ مگر بعض نے کہا کہ ہم فی الحال سکوت اختیار کرتے ہیں‘ آئندہ جو طرز عمل اہل مدینہ کا ہو گا ہم اس کا اتباع کریں گے۔ کوفہ کی طرف عمارہ بن شہاب روانہ کئے گئے تھے‘ ابھی وہ راستے ہی میں تھے‘ کہ طلیحہ بن خویلد سے ملاقات ہوئی‘ طلیحہ نے عمارہ سے کہا کہ مناسب یہی ہے کہ تم واپس چلے جائو‘ اہل کوفہ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو کسی دوسرے عامل سے تبدیل کرنا نہیں چاہتے اور اگر تم میرا کہنا نہیں مانتے ہو تو میں تمہاری گردن ابھی اڑائے دیتا ہوں‘ یہ سن کر عمارہ خاموشی کے ساتھ مدینہ کی طرف واپس چلے آئے۔ عبیداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے یمن میں داخل ہونے سے پیشتر ہی وہاں کے سابق عامل یعلی بن منبہ مکہ کی جانب روانہ ہو چکے تھے‘ عبیداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے باطمینان یمن کی حکومت سنبھال۔ قیس بن سعد رضی اللہ عنہ مصر پہنچے تو وہاں کے بعض شخصوں نے ان کی اطاعت قبول کی اور بعض نے سکوت اختیار کیا‘ بعض نے یہ کہا کہ جب تک ہمارے بھائی مدینہ سے مصر میں واپس نہ آ جائیں گے‘ اس وقت تک ہم کچھ کرنا نہیں چاہتے۔ سہل بن حنیف جو امیر شام ہو کر جا رہے تھے‘ تبوک پہنچ کر چند سواروں سے ملے‘ ان سواروں نے دریافت کیا کہ تم کون ہو ‘ سہل نے جواب دیا کہ امیر شام مقرر ہو کر جا رہا ہوں‘ ان سواروں نے کہا کہ تم کو عثمان رضی اللہ عنہ کے سوا کسی اور نے امیر مقرر کر کے روانہ کیا ہے تو تمہارے لیے بہتر یہی ہے کہ فوراً واپس چلے جائو‘ یہ سن کر سہل مدینہ کی طرف واپس چلے آئے‘ یہ جب مدینہ میں داخل ہوئے ہیں تو ان کے ساتھ ہی بعض دوسرے واپس شدہ عمال بھی مدینہ میں پہنچے۔ جریر بن عبداللہ البجلی سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے وقت ہمدان کے عامل تھے‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کو لکھا کہ اپنے صوبہ سے بیعت لے کر ہمارے پاس چلے آئو‘ وہ اس حکم کی تعمیل میں مدینہ چلے آئے۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی حمایت حق سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے معبد اسلمی کے ہاتھ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے پاس ایک خط روانہ کیا جس کے جواب میں ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے لکھا کہ اہل کوفہ نے میرے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے‘ اکثر نے یہ بیعت برضاو رغبت کی ہے اور بعض نے بہ اکراہ‘ اس خط کے آجانے سے گونہ اطمینان کوفہ کی طرف سے حاصل ہوا‘ جب ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے نام کوفہ کی جانب خط روانہ کیا گیا تھا‘ اسی وقت دوسرا خط جریر بن عبداللہ اور سبرہ جہنی کے ہاتھ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے نام دمشق کی جانب بھیجا گیا‘ وہاں سے تین مہینے تک کوئی جواب نہیں آیا۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کئی مہینے تک قاصد کو ٹھہرائے رکھا‘ پھر ایک خط سر بمہر اپنے قاصد قبیصہ عبسی کو دے کر جریر بن عبداللہ کے ساتھ مدینہ کی طرف