تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
لوگوں کی زبان پر جاری ہیں‘ آپ لوگوں نے اس معاملہ میں اگر کوئی فیصلہ کیا ہے‘ تو اس کو ظاہر کیجئے میں جواب دینے کے لیے تیار ہوں‘ ہاں یہ بھی بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ اگر کسی کو خلافت و امارت کی طمع ہو تو یاد رکھو کہ تم لوگ سوائے پیٹھ پھیر کر بھاگنے کے اور کچھ نہ حاصل کر سکو گے‘‘۔ اس تقریر کے آخری فقرے کو سن کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو جھڑک دیا‘ وہ بیٹھ گئے اور سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے‘ انہوں نے فرمایا کہ ’’اس میں شک نہیں کہ سیدنا ابوبکرصدیق اور سیدنا عمر فاروق نے خلیفہ ہو کر احتیاط اور احتساب کی وجہ سے اپنے عزیز و اقارب کی مطلق بات نہ پوچھی‘ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے رشتہ داروں کا لحاظ فرماتے‘ اوران کو مدد دیتے تھے‘ میرے عزیز و اقارب غریب لوگ ہیں‘ میں ان کے ساتھ سلوک کرتا ہوں‘ اگر تم اس کو ناجائز ثابت کر دو‘ تو میں اس طرز عمل سے دست کش ہونے کو تیار ہوں‘‘۔ اعتراض سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے یہیں تک فرمایا تھا‘ کہ ایک شخص نے اٹھ کر اعتراض کیا‘ کہ آپ اپنے رشتہ داروں کو ناجائز طور پر مال دیتے ہیں مثلاً عبداللہ بن سعد کو آپ نے تمام مال غنیمت بخش دیا‘ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میں نے اس کو مال غنیمت کے خمس میں سے صرف پانچواں حصہ دیا ہے‘ مجھ سے پہلے خلافت صدیقی اور خلافت فاروقی میں بھی اس کی مثال موجود ہیں۔ اس کے بعد ایک اور شخص اٹھا اور اس نے کہا کہ تم نے اپنے عزیزو اقارب کو امارتیں اور حکومتیں دے رکھی ہیں مثلاً معاویہ رضی اللہ عنہ بن ابی سفیان کو تمام ملک شام پر امیر بنا رکھا ہے‘ بصرے کی امارت سے ابو موسیٰ اشعری کو معزول کر کے ان کی جگہ عبداللہ بن عامر کو امیر بنایا‘ کوفہ کی امارت سے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو جدا کر کے ولید بن عقبہ کو اور اس کے بعد سعید بن العاص کو امیر بنایا‘ یہ سن کر سیدنا عثمان نے جواب دیا کہ جن لوگوں کو میں نے امارتیں دے رکھی ہیں وہ میرے اقارب نہیں ہیں‘ اور وہ اپنے عہدوں کے کام کو بحسن و خوبی انجام دینے کی قابلیت رکھتے ہیں‘ اگر وہ آپ لوگوں کی رائے میں امارت کے قابل نہیں اور مجھ پر ان کی بے جا رعایت کا الزام عائد ہوتا ہے تو میں ان لوگوں کی جگہ دوسروں کو مقرر کرنے کے لیے تیار ہوں‘ چنانچہ میں نے سعید بن العاص کو ان کی امارت سے جدا کر کے ابوموسیٰ اشعری کو کوفہ کا گورنر بنا دیا ہے۔ اس کے بعد ایک شخص نے کہا کہ تم نے بلا استحقاق اور ناقابل رشتہ داروں کو امارتیں دی ہیں جو ان امارتوں کے اہل نہ تھے مثلاً عبداللہ بن عامر ایک نوجوان شخص ہیں‘ ان کو والی نہیں بنانا چاہیے تھا۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ عبداللہ بن عامر عقل و فراست‘ دین داری و قابلیت میں خاص طور پر ممتاز ہے‘ محض نوجوان ہونا کوئی عیب کی بات نہیں ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسامہ بن زید کو صرف ۱۷ سال کی عمر میں کیوں امیر بنایا تھا۔ اس کے بعد ایک اور شخص اٹھا اور اس نے کہا کہ آپ کو اپنے کنبے والوں سے بڑی محبت ہے‘ آپ ان کو بڑے بڑے عطیات دیتے ہیں‘ سیدنا عثمان نے جواب دیا کہ اہل خاندان سے محبت کا ہونا کوئی گناہ نہیں ہے‘ میں ان کو اگر عطیات دیتا ہوں تو بیت المال سے