تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کی تو سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ان کو معزول کر کے ان کی جگہ فرات بن حیان اور ہند بن عمرو الجملی کو مقرر فرمایا۔ اس جگہ یہ بات قابل تذکرہ ہے کہ صوبہ جزیرہ کی فتح کو بعض مورخین نے فتوحات شام میں شمار کیا ہے ‘ بہرحال عیاض بن غنم اور خالد بن ولید جو عیاض بن غنم کے کمکی بن کر آئے تھے سیدنا ابوعبیدہ کی افواج یعنی افواج شام سے آئے تھے‘ صوبہ جزیرہ کی فتح کو شام و عراق دونوں کی فتوحات میں شامل سمجھنا چاہیے۔ خالدبن ولید کی معزولی عام طور پر لوگ کہتے ہیں کہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے تخت خلافت پر بیٹھتے ہی خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو معزول کر دیا تھا‘ لیکن اس بات کے سمجھنے میں لوگوں سے بہت غلطی ہوئی ہے‘ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے شروع عہد خلافت میں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو حقیقی طور پر معزول نہیں کیا تھا بلکہ ان کا درجہ کسی قدر کم کیا تھا‘ پہلے خالد بن ولید سپہ سالار اعظم تھے‘ سیدنا فاروق اعظم نے انہیں نائب سپہ سالاراعظم بنا دیا تھا‘ اس ایک درجہ کے ٹوٹنے سے ان کی ذمہ داریوں میں کوئی نمایاں فرق نہ آیا تھا‘ صرف اس بات کی روک تھام ہو گئی تھی کہ وہ آزادنہ طور پر مسلمانوں کی جمعیت کو کسی خطرے کے مقام میں نہیں لے جا سکتے تھے اور سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کی رضامندی اور اجازت ان کو حاصل کرنی پڑتی تھی۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی معزولی کا اصل واقعہ ۱۷ ھ کے آخری میہنوں میں ہوا‘ اور اس کی تفصیل اس طرح ہے کہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ہر سردار فوج‘ ہر عامل‘ ہر حصہ فوج اور ہر شہر کے حال سے باخبر رہتے تھے‘ آپ کے پرچہ نویس ہر فوج اور ہر شہر میں موجود ہوتے تھے اور بلاکم وکاست ضروری حالات سے خلیفہ وقت کو آگاہ رکھتے تھے‘ حالانکہ ہر ایک عامل اور ہر ایک سردار فوج خود بھی اپنے حالات کی اطلاع دربار خلافت میں بھیجتا رہتا تھا۔ فاروق اعظم کو ان کے پرچہ نویس نے اطلاع دی کہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جو صوبہ جزیرہ کی فتح سے ابھی واپس ملک شام میں آئے ہیں اپنے ساتھ بے حد مال و دولت لائے ہیں اور انہوں نے اپنی مدح کے صلہ میں اشعث بن قیس شاعر کو دس ہزار درہم دئیے ہیں‘ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ خالد رضی اللہ عنہ سے سر مجلس دریافت کیا جائے کہ تم نے اشعث کو انعام اپنی گرہ سے دیا ہے یا بیت المال سے‘ اگر اپنی گرہ سے دیا ہے تو اسراف ہے اور بیت المال سے دیا ہے تو خیانت‘ دونوں صورتوں میں معزولی کے قابل ہو‘ خالد رضی اللہ عنہ کا عمامہ اتار کر اسی عمامہ سے ان کی گردن باندھی جائے‘ قاصد سے فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے یہ بھی کہہ دیاتھا کہ اگر خالد بن ولید اپنی غلطی کا اقرار کریں تو ان سے درگذر کی جائے‘ چنانچہ وہ مجمع عام میں بلائے گئے‘ قاصد نے ان سے پوچھا کہ یہ انعام تم نے کہاں سے دیا؟ خالد رضی اللہ عنہ یہ سن کر خاموش رہے اور اپنی خطا کا اقرار کرنے پر رضا مند نہ ہوئے‘ مجبوراً قاصد نے ان کا عمامہ اتارا اور اسی سے ان کی گردن باندھی اور پھر دوبارہ دریافت کیا تو خالد نے کہا کہ اشعث کو میں نے اپنے مال سے انعام دیا‘ بیت المال سے نہیں دیا‘ قاصد نے یہ سنتے ہی گردن کھول دی اور فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو اس کیفیت کی اطلاع دی۔ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے خالد بن ولید کو جواب دہی کے لیے مدینہ منورہ میں طلب