تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کہ ان کو قتل کئے دیتا ہوں‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے مالک اشتر کو روکا اور کہا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا ضامن میں ہوں‘ اس کے بعد سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ عمرے کے ارادے سے مکہ کی جانب روانہ ہوگئے‘ اس کا حال سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا اور لوگوں نے ان سے کہا کہ وہ آپ کے خلاف ارادہ لے کر روانہ ہوئے ہیں‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فوراً ان کی گرفتاری کے لیے لوگوں کو روانہ کرنا چاہا‘ اتنے میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی ام کلثوم رضی اللہ عنھا جو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی زوجہ تھیں آئیں اور انہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو یقین دلایا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ آپ کے خلاف کوئی حرکت نہ کریں گے‘ اور وہ صرف عمرہ ادا کرنے کے لیے روانہ ہوئے ہیں‘ تب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اطمینان ہوا۔ ان کے علاوہ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ ‘ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ ‘ حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ ‘ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ ‘ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ ‘ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ ‘ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ‘ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ ‘ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ وغیرہ جلیل القدر حضرات نے بھی بیعت نہیں کی‘ بہت سے اشخاص بالخصوص بنی امیہ بیعت میں شامل نہ ہونے کے لیے مدینہ سے شام کی طرف فوراً روانہ ہو گئے ‘ بعض حضرات اسی غرض سے مکہ کی طرف چل دئیے‘ جو صحابی مدینہ منورہ میں موجود تھے اور پھر بھی انہوں نے بیعت نہیں کی ان کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے طلب کر کے وجہ دریافت کی تو انہوں نے صاف جواب دیا کہ ابھی مسلمانوں میں خوں ریزی کے اسباب موجود ہیں اور فتنہ کا کلی انسداد نہیں ہوا‘ اس لیے ابھی ہم رکے ہوئے ہیں اور بالکل غیر جانب دار رہنا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے مروان بن الحکم کو طلب کیا‘ مگر اس کا کہیں پتہ نہ چلا‘ سیدنا نائلہ زوجہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے قاتلوں کا نام دریافت کیا تو انہوں نے دو شخصوں کا صرف حلیہ بتایا اور نام نہ بتا سکیں‘ محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کی نسبت ان سے پوچھا کہ یہ بھی قاتلوں میں ہیں تو انہوں نے کہا کہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے قتل سے پہلے یہ دروازے سے باہر واپس جا چکے تھے‘ بنی امیہ کے بعض افراد زوجہ عثمان رضی اللہ عنہ سیدنا نائلہ رضی اللہ عنہ کی کٹی ہوئی انگلیاں اور خون آلود کرتا لے کر ملک شام کی طرف سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کے پاس گئے۔ خلافت کا دوسرا دن سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ دونوں اگلے دن سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے‘ اور کہا کہ ہم نے تو بیعت اسی شرط پر کی ہے کہ آپ قاتلین عثمان سے قصاص لیں اگر آپ نے قصاص لینے میں تامل کیا تو ہماری بیعت فسخ ہو جائے گی‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے ضرور قصاص لوں گا اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے معاملہ میں پورا پورا انصاف کروں گا لیکن ابھی تک بلوائیوں کا زور ہے اور ادھر امر خلافت پورے طور پر مستحکم نہیں ہوا‘ میں اطمینان و سہولت حاصل ہونے پر اس طرف توجہ کروں گا‘ فی الحال اس معاملہ میں کچھ نہیں کیا جا سکتا‘ یہ دونوں صاحب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی گفتگو سن کر اور اٹھ کر اپنے اپنے گھروں کو چلے آئے‘ لیکن لوگوں میں اس کے