تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جو کچھ ہے سب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ہی ہے‘ ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے مال میں ویسا ہی تصرف فرماتے تھے جیسا اپنے مال میں‘ جس روز سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ایمان لائے ہیں اس روز ان کے پاس چالیس ہزار درہم تھے‘ آپ رضی اللہ عنہ نے وہ سب کے سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر خرچ کر دئیے۔ ایک روز سیدنا عمرفاروق جیش عسرت یا جنگ تبوک کے چندہ کا تذکرہ فرما کر کہنے لگے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب ہمیں مال صدقہ کرنے کا حکم دیا تو میں نے سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر مال صدقہ کرنے کا مصمم ارادہ کر لیا اور اپنا نصف مال تصدق کر دیا‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے دریافت کیا کہ اپنے اہل و عیال کے واسطے کچھ چھوڑا‘ میں نے عرض کیا کہ باقی نصف‘ اتنے میں ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ۱؎ صحیحبخاریکتابالتفسیرحدیث۴۸۱۵۔ ۲؎ جامعترمذیابوابالمناقبحدیثضہیحالالبانیa۔ اپنا سارا مال لیے ہوئے آ گئے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے بھی وہی سوال کیا‘ انہوں نے جواب دیا کہ اہل و عیال کے لیے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ تعالیٰ کافی ہیں‘ میں نے یہ دیکھ کر کہا کہ میں کبھی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کسی بات میں نہ بڑھ سکوں گا۔۱؎ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ میں سب کا احسان اتار چکا ہوں‘ البتہ ابوبکرصدیق کا احسان باقی ہے‘ اس کابدلہ قیامت کے دن خدائے تعالیٰ دے گا‘ کسی شخص کے مال سے مجھے اتنا فائدہ نہیں ہوا جتنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے مال سے۔ علم و فضل آپ رضی اللہ عنہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں سب سے زیادہ عالم اور ذکی تھے‘ جب کسی مسئلہ کے متعلق صحابہ کرام رضی اللہ عنہ میں اختلاف واقع ہوتا تو وہ مسئلہ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش کیا جاتا‘ آپ رضی اللہ عنہ اس پرجو حکم لگاتے وہ عین صواب ہوتا۔ قرآن شریف کا علم آپ رضی اللہ عنہ کو سب صحابیوں رضی اللہ عنھم سے زیادہ تھا‘ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے آپ رضی اللہ عنہ کو نماز میں امام بنایا‘ سنت کا علم بھی آپ رضی اللہ عنہ کو کامل تھا‘ اسی لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم مسائل سنت میں آپ رضی اللہ عنہ ہی سے رجوع کرتے تھے‘ آپ رضی اللہ عنہ کا حافظہ بھی قوی تھا‘ آپ رضی اللہ عنہ نہایت ذکی الطبع تھے‘ آپ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فیض صحبت ابتدائے بعثت سے وفات تک حاصل رہا‘ زمانہ خلافت میں جب کوئی معاملہ پیش آتا تو آپ رضی اللہ عنہ قرآن شریف میں اس مسئلہ کو تلاش فرماتے‘ اگر قرآن شریف میں نہ ملتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے قول و فعل کے موافق فیصلہ کرتے‘ اگر کوئی ایسا قول و فعل معلوم نہ ہوتا تو باہر نکل کر لوگوں سے دریافت فرماتے کہ تم نے کوئی حدیث اس معاملہ کے متعلق سنی ہے؟ اگر کوئی صحابی ایسی حدیث بیان نہ فرماتے تو آپ رضی اللہ عنہ جلیل القدر صحابہ