تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
لیتے ہی ایک ہاتھ اس صفائی اور چابک دستی سے مارا کہ ان میں سے ایک کا سر کٹ کر الگ جا پڑا‘ دوسرا فوراً اٹھ کر بھاگ گیا۔ ابوبصیر رضی اللہ عنہ تلوار لیے ہوئے اس کے پیچھے دوڑے وہ وہاں سے مدینہ ہی کی طرف بھاگا اور ابوبصیر رضی اللہ عنہ سے پہلے مدینہ میں داخل ہوا‘ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں حواس باختہ گھبرایا ہوا آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اپنے ساتھی کے مارے جانے کا حال سنایا‘ وہ ابھی حال سناہی رہا تھا کہ ابوبصیر رضی اللہ عنہ بھی تلوار لیے ہوئے سامنے نمودار ہوئے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ابوبصیر رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر فرمایا کہ یہ آتش جنگ بھڑکانا چاہتا ہے‘ اگر اس کی مدد کی گئی تو ضرور لڑائی کرا کر رہے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مبارک سے یہ الفاظ سن کر ابوبصیر رضی اللہ عنہ کو یقین ہو گیا کہ مدینہ میں میرا رہنا دشوار ہے‘ انہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تو اپنا عہد پورا کر دیا اور مجھ کو ان مشرکوں کے سپرد فرما دیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھ کو پھر آزاد کر دیا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے عہد کی پابندی میں مجھ کو پھر مشرکوں کے سپرد فرمائیں گے‘ لہذا میں جاتا ہوں یہ کہہ کر وہ وہاں سے چل دئیے۔ قریش کا آدمی مکہ میں گیا اور تمام حال قریش مکہ کو سنایا‘ ابوبصیر رضی اللہ عنہ مدینہ سے روانہ ہو کر ساحل سمندر کے قریب مقام عیص میں مقیم ہو گئے‘ ابوجندل رضی اللہ عنہ بن سہل جن کا حال اوپر مذکور ہو چکا ہے ابوبصیر رضی اللہ عنہ کا حال سن کر مکہ سے فرار ہوئے اور سیدھے مقام عمیص میں ابوبصیر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچ گئے‘ اس کے بعد یکے بعد دیگرے جو شخص مکہ میں مسلمان ہوتا‘ مکہ سے بھاگ کر ابوبصیر رضی اللہ عنہ کے گروہ میں شریک ہو جاتا‘ رفتہ رفتہ ان کا ایک زبردست گروہ مقام عیص میں جمع ہو گیا۔ اب اس گروہ نے قریش مکہ کے قافلوں پر جو ملک شام کو تجارت کے لیے جاتے تھے چھاپے مارنے شروع کر دئیے‘ قریش مکہ کے لیے یہ گروہ اس قدر پرخطر ثابت ہوا کہ ان کا ناک میں دم آ گیا اور وہ تنگ اور عاجز ہو کر بجز اس کے اور کچھ نہ کر سکے کہ انہوں نے بہ منت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ ہم معاہدہ کی چوتھی شرط کو منسوخ قرار دیتے ہیں‘ اب جو شخص مسلمان ہو کر مکہ سے مدینے جائے گا ہم ہرگز اس کو واپس نہ لیں گے اور ازراہ کرام آپ صلی اللہ علیہ و سلم عیص والے مسلمانوں یعنی جماعت ابوبصیر رضی اللہ عنہ کو بھی اپنے پاس مدینے میں بلا لیں‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے قریش مکہ کی اس درخواست کو منظور فرما لیا اور ابوبصیر رضی اللہ عنہ کے پاس پیغام بھیجا کہ تم مع اپنی جماعت کے مدینے میں چلے آئو۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمان عیص میں پہنچا ہے تو ابوبصیر بیمار اور صاحب فراش تھے‘ انہوں نے ابوجندل رضی اللہ عنہ کو بلا کر ہدایت کی کہ تم اس حکم کی تعمیل کرو اس کے بعد ابوبصیر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہو گیا‘ اور ابوجندل رضی اللہ عنہ معہ رفقاء مدینے میں چلے آئے‘۱؎ ابوبصیر رضی اللہ عنہ کا مذکورہ واقعہ معاہدہ حدیبیہ کے سلسلہ میں اس جگہ مسلسل بیان کر دیا گیا ہے ورنہ اس کا تعلق ۶ ھ سے ہے۔ حبشہ کے مہاجرین کی واپسی