تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
عورتوں سے بھی درگذر ہی کیا کرتے ہیں‘ اور یہ تو مسلمان عورتیں ہیں ان کی ہر ایک بات کو برداشت کرنا چاہیے۔ سیدنا ام المومنین رضی اللہ عنہ سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بڑی تعظیم و تکریم کا برتائو کیا اور ان سے پوچھا کہ آپ کو کسی قسم کی تکلیف تو نہیں ہے‘ پھر تمام معاملات میں ہر طرح صلح و صفائی ہو گئی‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بھی معذرت کی اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا نے بھی معذرت کا اظہار فرمایا۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بصرہ کا حاکم اور گورنر مقرر فرما کر محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ سامان سفر کی تیاری کریں‘ چنانچہ یکم ماہ رجب ۳۶ ھ کو ہر قسم کا سامان سفر درست کر کے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کو رئوساء بصرہ کی چالیس عورتوں اور محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ بصرہ سے روانہ کیا‘ کئی کوس تک دو بطریق مشایعت ہمراہ آئے‘ اور دوسری منزل تک سیدنا حسن رضی اللہ عنہ بن علی رضی اللہ عنہ پہنچانے آئے‘ سیدنا ام المومنین رضی اللہ عنہ اول مکہ معظمہ گئیں‘ اور ماہ ذی الحجہ تک مکہ میں رہیں‘ وہاں حج ادا کر کے محرم ۳۷ ھ میں مدینہ منورہ تشریف لے گئیں۔ جنگ جمل میں بہت سے بنو امیہ بھی شریک تھے اور اہل جمل کی طرف سے لڑے تھے‘ لڑائی کے بعد مروان بن الحکم‘ عتبہ بن ابی سفیان ‘ عبدالرحمن و یحییٰ برادران مروان وغیرہ تمام بنو امیہ بصرہ سے شام کی طرف چل دئیے اور سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس دمشق میں پہنچے‘ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ جو معرکہ جمل میں زخمی ہو گئے تھے‘ بصرہ میں ایک شخص ازدی کے یہاں پناہ گزیں ہوئے تھے‘ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا نے اپنے بھائی محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو بھیج کر انہیں بلوایا اور اپنے ہمراہ مکہ کو لے کر روانہ ہوئیں۔ فرقہ سبائیہ کی ایک اور شرارت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کو بصرہ سے روانہ کرنے کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بصرہ کے بیت المال کو کھولا‘ اور اس میں جس قدر زر نقد تھا وہ سب ان لشکریوں میں تقسیم کر دیا‘ جو معرکہ جمل میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے زیر علم لڑ رہے تھے‘ ہر شخص کے حصہ میں پانچ پانچ سو درہم آئے‘ یہ روپیہ تقسیم کر کے آپ نے فرمایا کہ اگر تم ملک شام پر حملہ آور ہو کر فتح یاب ہو جائو‘ تو تمہارے مقرر وظائف کے علاوہ اتناہی روپیہ اور دیا جائے گا۔ عبداللہ بن سبا کا گروہ جس کو فرقہ سبائیہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے‘ جنگ جمل کے ختم ہوتے ہی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے خلاف علانیہ بد زبانیاں شروع کر چکا تھا اور اس بد زبانی اور طعن و تشنیع کے لیے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے اس حکم کو وجہ قرار دی تھی کہ آپ نے مال و اسباب کے لوٹنے سے منع کر دیا تھا‘ اب تک تو اس حکم کے خلاف یہ فرقہ شکایات کرتا اور لوگوں کو بھڑکاتا تھا‘ اب جب کہ ہر ایک لشکر کو پانچ پانچ سو درم ملے تو اس پر بھی اعتراضات کا سلسلہ شروع کر دیا اور یہ مخالفت یہاں تک سختی و شدت کے ساتھ شروع کی کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لیے ان کی طرف سے چشم پوشی کرنا دشوار ہو گیا‘ سیدنا علی نے جس قدر اس گروہ کو نصیحت و فہمائش کی اسی قدر اس نے شوخ چشمی میں ترقی کی‘ اور نوبت یہاں تک پہنچی‘ کہ یہ