تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
فتح حمص سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح نے حمص کے ارادے سے روانہ ہو کر ذوالکلاع میں پڑائو ڈالا‘ حمص ملک شام کے چھ اضلاع میں سے ایک ضلع کا نام ہے اور یہی نام ایک شہر کا ہے جس کے نام سے یہ ضلع موسوم ہے‘ انگریزی میں حمص کو امیسا کہتے ہیں‘ اس شہر میں سورج کا مندر تھا جس کی زیارت کے لیے دور دور سے بت پرست آیا کرتے تھے‘ اردن اور دمشق کے اضلاع کی فتح کے بعد اب حمص‘ انطاکیہ‘ بیت المقدس بڑے بڑے اور مرکزی مقامات باقی تھے جو مسلمانوں کو فتح کرنے تھے‘ جب اسلامی لشکر مقام ذوالکلاع میں جا کر خیمہ زن ہوا تو قیصر ہرقل نے تو ذربطریق کو مقابلہ کے لیے روانہ کیا جس نے حمص سے روانہ ہو کر مقام مرج روم میں پہنچ کر قیام کیا‘ اس کے بعد قیصر نے شمس بطریق کو بھی لکھا‘ ان دونوں بطریقوں سے اسلامی فوجوں کا مقابلہ ہوا‘ نتیجہ یہ ہوا کہ شمس بطریق سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے مارا گیا اور رومی لشکر شکست یاب ہو کر بھاگا۔ یہ بھاگا ہوا لشکر جب حمص پہنچا تو قیصر ہرقل جو حمص میں مقیم تھا حمص کو چھوڑ کر وہاں سے الرہا کی طرف چلا گیا‘ سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے مرج روم سے روانہ ہو کر حمص کا محاصرہ کیا‘ ہرقل نے بہت کوشش کی کہ اہل حمص کو مدد پہنچائے مگر اس کی کوئی کوشش کارگر ثابت نہ ہوئی اور اہل حمص کو کوئی امداد رومیوں کی نہ پہنچ سکی‘ آخر مجبور و مایوس ہو کر اہل حمص نے انہیں شرائط پر کہ جن پر اہل دمشق نے صلح کی تھی حمص کو مسلمانوں کے سپرد کر دیا۔ فتح حمص کے بعد شہر حماۃ پر جو حمص و قنسرین کے درمیان واقع ہے فوج کشی ہوئی‘ اہل حماۃ نے بھی جزیہ دینا منظور کیا اور صلح کی‘ اس کے بعد شیرز اور معرۃ پر اسی طرح مسلمانوں کا قبضہ ہوا‘ اس کے بعد شہر الاذقیہ پر عیسائیوں نے مسلمانوں کا مقابلہ کیا‘ مگر مغلوب و مفتوح ہوئے‘ الاذقیہ کے بعد سلمیہ کو بھی بزور تیغ مسلمانوں نے فتح کیا۔ فتح قنسرین سلمیہ کی فتح کے بعد سیدنا خالد بن ولید اپنی رکابی فوج لے کر بحکم سیدنا ابوعبیدہ قنسرین کی جانب بڑھے وہاں میناس نامی رومی سردار نے جس کا مرتبہ ہرقل کے بعد سب سے بڑا تھا آگے بڑھ کر خالد بن ولید کا مقابلہ کیا‘ خالد بن ولید نے سخت مقابلہ کے بعد اس کو پسپا ہونے پر مجبور کیا‘ وہ قنسرین میں داخل ہو کر قلعہ بند ہوا اور خالد بن ولید نے آگے بڑھ کر قنسرین کا محاصرہ کر لیا‘ انجام کار قنسرین مفتوح ہوا‘ اس فتح کا حال جب سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا تو وہ سیدنا خالد بن ولید سے بہت خوش ہوئے اور ان کے اختیارات اور فوجی سرداری میں نمایاں اضافہ فرمایا۔ فتح حلب و انطاکیہ مہم قنسرین سے فارغ ہو کر سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے حلب کی جانب کوچ کیا‘ جب حلب کے قریب پہنچے تو خبر آئی کہ اہل قنسرین نے عہد شکنی اور بغاوت اختیار کی ہے‘ چنانچہ سیدنا ابوعبیدہ نے فوراً ایک دستہ فوج کو قنسرین کی طرف روانہ کیا‘ اہل قنسرین نے محصور ہو کر پھر اظہار اطاعت کیا اور بھاری جرمانہ دے کر اپنے آپ کو بچایا‘ سیدنا ابوعبیدہ نے حلب کے قریب پہنچ کر مقام کیا اور سیدنا عیاض بن غنم نے جو مقدمۃ الجیش کے افسر تھے اپنی ماتحت فوج کو لے کر حلب کا محاصرہ کیا‘ اہل حلب نے