تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کے آثار نمایاں تھے‘ لقیط نے بڑی بہادری سے لشکر اسلام پر حملے کئے‘ بالآخرلڑائی کا رنگ بدلا اور مسلمانوں نے صبر و استقامت سے کام لے کر دشمنوں کو پیچھے ہٹایا‘ دشمن منہ موڑ کر بھاگے اور مسلمانوں کو فتح عظیم حاصل ہوئی‘ اس لڑائی میں دس ہزار دشمن مقتول ہوئے اور چار ہزار گرفتار ہو کر مسلمانوں کی قید میں آئے‘ اسی تناسب سے مال غنیمت لے کر مدینے میں آئے اور سیدنا عکرمہ رضی اللہ عنہ مہرہ کی جانب روانہ ہوئے‘ چند روز کے بعد تمام عمان میں اسلام قائم ہو گیا۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذَالِکَ! ردت مہرہ مہرہ میں کچھ لوگ عمان کے مقیم تھے‘ ان کے علاوہ عبدالقیس کے لوگ بھی وہاں موجود تھے‘ ازد اور بنی سعد وغیرہ قبائل بھی وہاں آباد تھے‘ یہ سب کے سب مرتد ہو کر ریاست و امارت کے معاملہ میں دو گروہوں کے اندر منقسم ہو کر آپس میں لڑائی جھگڑا کر رہے تھے‘ سیدنا عکرمہ رضی اللہ عنہ نے مہرہ میں پہنچ کر ان لوگوں کو اسلام کی دعوت دی‘ ان میں سے ایک گروہ نے اسلام قبول کر لیا‘ دوسرے نے جس کا سردار مصبح تھا اسلام قبول کرنے سے انکار اور اپنے ارتداد پر اصرار کیا۔ سیدنا عکرمہ رضی اللہ عنہ نے گروہ مسلم کو اپنے ساتھ لے کر مرتدین پر حملہ کیا اور شکست فاش دے کر ان کے سردار کو قتل کر دیا‘ اس فتح کا نواحی علاقوں پر خاص اثر پڑا‘ اردگرد کے تمام قبائل بخوشی اسلام میں داخل ہو گئے‘ سیدنا عکرمہ رضی اللہ عنہ نے مال غنیمت کے ساتھ اسلامی کامیابیوں کی مفصل کیفیت لکھ کر سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھیجی‘ وہاں سے جواب آیا کہ اب تم یمن کی طرف روانہ ہو کر مہاجر رضی اللہ عنہ بن ابی امیہ کے لشکر میں شریک ہو جائو۔ ردت یمن اسود عنسی کا ذکر اوپر آ چکا ہے کہ اس نے ملک یمن میں نبوت کا دعویٰ کر کے قریباً تمام ملک یمن میں بدامنی پیدا کر دی تھی‘ لیکن وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ حیات ہی میں مقتول ہو کر اپنے کیفرکردار کو پہنچ چکا تھا اور ملک یمن میں ارتداد کے بعد پھر اسلام پھیلنے لگا تھا‘ ابھی تک پورے طور پر مطلع صاف نہ ہوا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات ہوئی‘ اس خبر کے مشہور ہوتے ہی تمام ملک یمن میں پھر وبائے ارتداد پھیل گئی‘ اس مرتبہ مرتدین یمن کے دو مشہور سردار تھے‘ ایک قیس بن مکشوح‘ دوسرا عمرو بن معدی کرب‘ یمن کے مسلمانوں کو مرتدین یمن نے بہت ستایا‘ بہت سی چھوٹی چھوٹی لڑائیوں کا سلسلہ جاری رہا‘ مسلمان جو تعداد میں بالکل بے حقیقت تھے وہ علاقہ کو خالی کرتے ہوئے آہٹ آئے تھے۔ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے ملک یمن کے علاقہ صنعا کی طرف مہاجر بن ابی امیہ رضی اللہ عنہ کو ایک لشکر کے ساتھ روانہ کیا تھا‘ مہاجر بن ابی امیہ رضی اللہ عنہ مدینہ سے روانہ ہو کر راستہ میں مکہ و طائف سے مسلمانوں کی جمعیت کو ہمراہ لیتے ہوئے نہایت تیز رفتاری سے علاقہ نجران میں داخل ہو کر خیمہ زن ہوئے۔ قیس و عمرو کو مہاجر رضی اللہ عنہ کے حملہ آور ہونے کی اطلاع پہلے سے پہنچ چکی تھی‘ وہ بھی نجران میں ان کی آمد کے منتظر تھے‘ عمروبن معد یکرب عرب کا مشہور سردار تھا‘ جس کی صف شکنی و حریف افگنی کی تمام ملک میں دھاگ بیٹھی ہوئی تھی‘ مہاجر رضی اللہ عنہ نے دشمنوں کے بے قیاس و لاتعداد افواج میں اپنے آپ