تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
علی سکرات الموت (اے اللہ سکرات موت میں میری مدد کر) سیدنا ام المومنین بار بار آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا چہرہ دیکھتی جاتی تھیں کہ یکایک آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی آنکھیں پتھرا گئیں‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مبارک پر اس وقت الرفیق الا علی من الجنۃ جاری تھا۔۲؎ دوپہر کے قریب بروز دو شنبہ ۱۲ ربیع الاول ۱۱ ھ کو اس دار فانی سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انتقال فرمایا‘ اگلے دن سہ شنبہ کو دوپہر کے قریب مدفون ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے انتقال کے وقت سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ موجود نہ تھے‘ وہ اپنے اہل و عیال کے پاس اپنے مکان پر جو مقام سنح میں تھا گئے ہوئے تھے‘ اس خبر کو جو شخص سنتا تھا حیران و ششدر رہ جاتا تھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی حالت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فاروق رضی اللہ عنہ کے بھی ہوش و حواس بجا نہ رہے۔۳؎ وہ اپنی تلوار کھینچ کر کھڑے ہو گئے اور بلند آواز سے کہنے لگے: ان رجالا من المنافقین زعمواان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مات و انہ ذھب الی ربہ کماذھب موسی ولیر جعن فیقطعن ایدی رجال وارجلھم ’’منافقوں کے چند لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم انتقال فرما گئے حالانکہ وہ فوت نہیں ہوئے‘ وہ اپنے رب کے پاس اس طرح گئے ہیں جس طرح موسیٰ علیہ السلام گئے تھے‘ وہ ضرور واپس آئیں گے اور کچھ لوگوں کے ہاتھ اور پائوں کاٹیں گے‘‘ سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ جوش اور غضب کی حالت میں اسی قسم کی باتیں کر رہے تھے اور کسی کی مجال نہ تھی کہ ان سے یہ کہتا کہ تم اپنی تلوار نیام میں کر ۱؎ صحیحبخاریکتابالمغازیحدیث۴۴۳۸۔ ۲؎ صحیحبخاریکتابالمغازیحدیث۴۴۳۷۔ ۳؎ یعنی شدت غم سے ان کی حالت عجیب ہو گئی۔ لو‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا انتقال ہو گیا ہے‘ اتنے میں سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ آ پہنچے اور سیدھے حجرہ مبارک میں گئے‘ پیشانی مبارک کا بوسہ لے کر اور بغور دیکھ کر کہا کہ میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر قربان ہوں بے شک آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس موت کا ذائقہ چکھا جس کو اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے مقدر فرمایا تھا‘ اور اب ہرگز اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو موت نہ آئے گی پھر انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھتے ہوئے باہر آئے۔۱؎ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی استقامت سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کو وہی باتیں کہتے ہوئے سنا اور ان سے کہا کہ خاموش رہو مگر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی مطلق پرواہ نہ کی‘ تو سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے علیحدہ کھڑے ہو کر مخاطب کیا‘ جس قدر آدمی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جمع تھے وہ سب ان کو تنہا چھوڑ کر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس چلے آئے‘ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بعد حمدو ثناء کے فرمایا ’’لوگو! اگر تم محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو پوجتے تھے تو محمد صلی اللہ علیہ و سلم تو فوت ہو گئے‘ اور اگر اللہ تعالی کی پرستش کرتے تھے تو اللہ تعالی بے شک زندہ ہے اور وہ کبھی نہیں مرے گا‘ ’’پھر انہوں نے قرآن کریم کی یہ آیت پڑھی۔: {وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ اَفَاْئِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓی اَعْقَابِکُمْ وَ مَنْ یَّنْقَلِبْ