تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پہنچا اور عرض کیا کہ میں مسلمان ہوں‘ آپ آلات حرب سے مدد کریں میں مرتدین کا مقابلہ کروں گا‘ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اس کو اور اس کے ہمراہیوں کو سامان حرب عطا کر کے مرتدین کے مقابلہ کو بھیجا‘ اس نے مدینہ سے نکل کر اپنے ارتداد کا اعلان کیا اور بنو سلیم و بنو ہوازن کے ان لوگوں پر جو مسلمان ہو گئے تھے شب خون مارنے کو بڑھا‘ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے اس حال سے آگاہ ہو کر فوراً عبداللہ بن قیس کو روانہ کیا‘ انہوں نے ان دھوکہ باز مرتدین کو راستہ ہی میں جا لیا بعد مقابلہ و مقاتلہ الفجاۃ بن عبدیا لیل گرفتار ہو کر سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے سامنے مدینہ میں حاضر کیا گیا اور مقتول ہوا۔ سجاح اور مالک بن نویرہ بنو تمیم چند قبائل پر مشتمل اور چند بستیوں میں سکونت پذیر تھے‘ ان کے علاقے پر حیات نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں چند عامل جو کہ انہیں کی قوم کے مقرر تھے جن کے نام مالک بن نویرہ‘ وکیع بن مالک ‘ صفوان بن صفوان‘ قیس بن عاصم وغیرہ تھے‘ جب وفات نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کی خبر مشہور ہوئی تو قیس بن عاصم مرتد ہو گیا‘ مالک بن نویرہ نے بھی اس خبر کو سن کر مسرت کا اظہار کیا‘ صفوان بن صفوان اسلام پر قائم رہے اور قیس و صفوان میں جنگ شروع ہو گئی‘ اس اثناء میں سجاح بنت الحرث بن سوید نے جو قبیلہ تغلب سے تعلق رکھتی تھی نبوت کا دعویٰ کیا اور بنی تغلب کے سردار ہذیل بن عمران نے‘ اور بنی نمر کے سردار عقبہ ابن ہلال‘ اور بنی شیبان کے سردار سلیل بن قیس نے اس کے دعویٰ کو قبول کیا‘ سجاح کے پاس چار ہزار کے قریب لشکر جمع ہو گیا‘ وہ اس لشکر کو لے کر مدینہ پر حملہ کرنے کے ارادہ سے چلی‘ بنو تمیم کے اندر اختلاف پیدا ہو ہی گیا تھا‘ مالک بن نویرہ نے سجاح سے مصالحت کر کے اس کو مشورہ دیا کہ بنو تمیم کے دوسرے قبائل پر حملہ کرے اور اس طرح بنو تمیم کو مجبور کر کے اپنے ساتھ لے کر مدینہ کی طرف جائے‘ سجاح نے بنو تمیم پر حملہ کیا‘ بنو تمیم نے مقابلہ کر کے اس کے لشکر کو شکست دی مگر پھر صلح ہو گئی۔ اب سجاح مالک بن نویرہ اور وکیع بن مالک کو ہمراہ لے کر چلی‘ تھوڑی دور جا کر اور کچھ سوچ کر بنو تمیم کے یہ دونوں سردار جدا ہو کر واپس چلے گئے‘ سجاح اپنے لشکر کو لیے ہوئے آگے بڑھی‘ سجاح نے اپنے پیرئوں کے لیے پنج وقتہ نماز تو لازمی رکھی تھی‘ مگر سور کا گوشت کھانا‘ شراب پینا اور زنا کرنا جائز قرار دے دیاتھا‘ بہت سے عیسائی بھی اپنا مذہب چھوڑ کر اس کی جماعت میں شامل ہو گئے تھے۔ اب سجاح کو بنی تمیم کی بستیوں سے آگے بڑھ کر معلوم ہوا کہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ لشکر اسلام لیے ہوئے اس کی طرف تشریف لا رہے ہیں‘ ادھر مسیلمہ کذاب کی جمعیت کثیرہ کا حال سن کر اس کو تردد ہوا کہ کہیں وہ بھی نبوت کا مدعی ہونے کے سبب رقابت اور مخالفت پر آمادہ نہ ہو جائے‘ مسیلمہ کذاب نے جب سجاح کے لشکر کا حال سنا تو وہ بھی اپنی جگہ متردد ہوا‘ کہ ایک طرف اسلامی لشکر کا خطرہ ہے اور دوسری طرف سجاح لشکر عظیم لیے ہوئے نکلی ہے‘ اگر اس طرف متوجہ ہو گئی تو بڑی دقت پیش آئے گی۔ ادھر عکرمہ رضی اللہ عنہ اور شرجیل رضی اللہ عنہ بھی اپنی جمعیت کو لیے ہوئے یمامہ کے قریب پہنچ چکے تھے اور مسیلمہ و سجاح کو ایک دوسرے کا شریک کار سمجھ کر احتیاط کو کام میں لا رہے تھے‘ بالآخر مسیلمہ نے سجاح کو خط لکھا کہ تمہارا