تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
وفد کو رخصت کرتے وقت انعام اور صلہ بھی ضرور دیتے تھے۔۲؎ تبوک سے واپس آ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو ایک جمعیت دے کر بلادطے کی جانب روانہ کیا‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بلادطے کے قریب پہنچ کر حملہ کیا‘ عدی بن حاتم فرار ہو کر شام کی طرف بھاگ گیا‘ سیدنا علی حاتم کی لڑکی کو قید کر لائے اور دو تلواریں ان کے بت خانے سے لوٹ لائے جن کو حرث بن ابی عمر نے چڑھایا تھا‘ حاتم کی لڑکی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم مجھ پر ۱؎ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ مصنف نے یہاں مختصراً درج کیا ہے جبکہ یہ واقعہ صحیحبخاریکتابالمغازیحدیث۴۴۱۸اور صحیحمسلمکتابالتوبہبابحدیثتوبۃکعب رضی اللہ عنہ میں کافی تفصیل سے موجود ہے۔ ۲؎ سیرت ابن ہشام‘ ص ۵۴۸ تا ۵۵۳۔ احسان کیجئے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ میں نے تجھ پر احسان کیا یعنی تجھ کو آزاد کر دیا لیکن تو جلدی نہ کر کوئی معتبر اور معزز شخص آئے تو میں اس کے ہمراہ تجھ کو تیرے ملک میں پہنچا دوں ‘ اتنے میں چند لوگ ملک شام کے آئے ان کے ہمراہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس لڑکی کو کپڑے اور زاد راہ وغیرہ دے کر رخصت کیا۔ یہ لڑکی جب اپنے بھائی عدی بن حاتم کے پاس پہنچی تو عدی نے اپنی بہن سے پوچھا کہ تو نے اس شخص یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو کیسا پایا؟ اس نے کہا کہ وہ شخص ملنے کے قابل ہے نہایت خلیق اور اعلیٰ درجہ کا محسن ہے‘ عدی یہ سنتے ہی اٹھ کھڑا ہوا اور اپنی قوم کی طرف سے وفد ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی بڑی عزت کی اور مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم سے اپنے ہمراہ لیے ہوئے مکان پر آئے اور اس کو بچھونے پر بٹھایا‘ ایک عورت اثناء راہ میں مل گئی‘ اس نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو روک لیا‘ جب تک وہ بات کرتی رہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کھڑے رہے‘ عدی بن حاتم کو اس خلق نے مسخر کر لیا‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عدی بن حاتم کو کچھ نصائح فرمائے‘ عدی بن حاتم نے اپنا ہاتھ بڑھایا‘ بیعت کی اور مسلمان ہو کر اپنی قوم کی طرف واپس ہوئے۔۱؎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پہلے نائب تبوک سے واپس ہونے کے بعد وفود کا تواتر ایسا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ سے جدا نہیں ہو سکتے تھے‘ کیونکہ قبائل عرب برابر آ آ کر اسلام میں داخل ہو رہے تھے‘ جب حج کا موسم آیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی جگہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حج کا امیر بنا کر روانہ کیا اور بیس اونٹ قربانی کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی طرف سے ان کے ساتھ کئے‘ پانچ اونٹ قربانی کے سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی طرف سے لیے‘ تین سو مسلمانوں کا قافلہ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے ہمراہ روانہ ہوا‘ سیدنا ابوبکرصدیق کی روانگی کے بعد سورہ براء ۃ کی چالیس آیتیں نازل ہوئیں‘ جن میں یہ حکم تھا کہ اس سال کے بعد مشرکین مسجد حرام کے قریب نہ جائیں اور بیت اللہ کا طواف برہنہ ہو کر نہ کریں‘ ۲؎اور جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کوئی عہد کیا ہے وہ اس کی مدت تک پورا کر دیا جائے۔