تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جنگ بدر ابوسفیان نے ابوجہل کے پاس خبر بھیجی کہ ہم مکہ پہنچ گئے ہیں‘ اب واپس چلے آئو لیکن ابوجہل اپنے لشکر جرار پر مغرور تھا‘ اس کو یہ گوارا نہ ہوا کہ ویسے ہی چلا جائے‘ ابوجہل درحقیقت یہ لشکر صرف قافلہ ہی کی حفاظت کے لیے لے کر نہیں نکلا تھا بلکہ اس سے پیشتر عمروبن حضرمی ایک شخص قریش کا حلیف بعض مسلمانوں کے ہاتھ سے جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے رجب کے مہینے میں بطن نخلہ کی طرف بعض حالات کی تحقیق کے لیے بھیجا تھا مارا گیا تھا‘ قریش نے عمرو بن حضرمی کے قتل کو بہانہ بنا کرجنگ کی تیاری مکمل کر لی تھی اور وہ مدینہ پر حملہ کرنے کے لیے روانہ ہونے ہی والے تھے کہ ضمضم بن عمرو قافلہ والوں کی طرف سے استمداد کے لیے پہنچا اور ابوجہل جو پہلے سے روانگی پر آمادہ تھا روانہ ہو گیا‘ چنانچہ ابوجہل برابر کوچ و مقام مارتا ہوا مدینہ کی طرف بڑھتا ہوا چلا آیا‘ قریش کے لشکر کی روانگی کا حال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو معلوم ہوا‘ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ابوجہل ‘ عتبہ‘ شیبہ‘ ولید ‘ حنظلہ‘ عبیدہ‘ عاصی‘ حرث‘ طعیمہ‘ زمعہ‘ عقیل‘ ابوالنجتری مسعود‘ نبیہ‘ منبہ‘ نوفل‘ سائب‘ رفاعہ وغیرہ تمام بڑے بڑے سردار قریش کے اس لشکر میں موجود ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ خبر سن کر ایک مجلس مشورت منعقد کی اور صحابہ رضی اللہ عنہ کرام سے فرمایا کہ مکہ نے اپنے جگر گوشے اور منتخب لوگ تمہاری طرف بھیجے ہیں‘ ان کا مقابلہ کرنے کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے؟ اول سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے بعد سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے‘ ان کے بعد سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ نے نہایت شجاعت و بہادری کے کلمات فرمائے اور کہا کہ ہم ان بنی اسرائیل کی طرح نہیں ہیں‘ جنہوں نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا کہ:۔ {فَاذْھَبْ اَنْتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰھُنَا قٰعِدُوْنَ} (مائدہ : ۵/۲۴) (تو اور تیرا رب دونوں جا کر لڑو ہم تو یہیں بیٹھے تماشا دیکھیں گے) … اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ لوگو! ان کفار سے لڑائی کے بارے میں تمہارا کیا مشورہ ہے‘ اس دوبارہ فرمانے سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا منشاء یہ تھا کہ انصار کی رائے بھی معلوم ہو‘ کیونکہ مذکورہ ہرسہ حضرات مہاجرین میں سے تھے‘ انصار سے جس بات پر بیعت لی گئی تھی وہ یہ تھی کہ مدینہ پر جب بیرونی دشمن حملہ آور ہو گا تو اس سے لڑیں گے‘ یہ عہد نہیںتھا کہ مدینہ سے باہر نکل کر کسی سے جنگ کریں گے‘ انصار فوراً اس بات کو سمجھ گئے اور ان میں سے سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے‘ اور عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا روئے سخن شاید ہم لوگوں کی جانب ہے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:۔ ہاں! سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لائے ہیں ‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالیٰ کا رسول یقین کرتے ہیں اور یہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کا رسول صلی اللہ علیہ و سلم کفار کے مقابلہ کو جائے اور ہم گھروں میں بیٹھے رہیں‘ یہ کفار تو ہم جیسے آدمی ہی ہیں ہم ان سے کیا ڈریں گے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اگر ہم کو حکم دیں گے کہ سمندر میں کود پڑو تو ہم بلا دریغ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم کی تعمیل کریں گے۔۱؎ بے سروسامانی جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو خوب اطمینان ہو گیا کہ تمام صحابہ رضی اللہ عنھم جنگ اور مقابلہ کے لیے آمادہ ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے آگے روانگی کا عزم