تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نہیں مسلمانوں کا کوئی ایک معمولی سپاہی بھی جو عہد و اقرار کرلے گا وہ تمام مسلمانوں کو تسلیم کرنا پڑے گا‘ لہذا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا عہد نامہ جائز سمجھا جائے گا‘ اس پر یہ رائے پیش کی گئی کہ وسط شہرباب توما تک نصف شہر بذریعہ مصالحت مفتوح سمجھا جائے گا اور نصف شہر بذریعہ شمشیر مسخر تصور کیا جائے گا‘ لیکن سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اسکو بھی پسند نہ فرمایااور تمام شہر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے عہد نامہ کے موافق بمصالحت مفتوح سمجھا گیا اور ان تمام باتوں پر سختی سے عمل درآمد کیا گیا جن کی نسبت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد نامہ میں تصریح فرمادی تھی۔۱؎ ابن خلدون کی روایت کے موافق خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بزور شمشیر باب توما کی طرف سے داخل ہوئے تو شہر والوں نے باقی دروازوں کے سامنے والے سرداروں سے مصالحت کر کے ان کو بمصالحت شہر میں داخل کیا۔ بہرحال مسلمانوں نے دمشق والوں کے ساتھ مصالحانہ سلوک کیا اور شہر والوں کو کوئی آزار نہیں پہنچایا سیدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے یزید ابن ابی سفیان کو دمشق کا عامل مقرر کیا اور رومی سرداروں نیز سپاہیوں کو دمشق سے نکل کر جہاں ان کا جی چاہا چلے جانے دیا جنگ فحل یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کو دمشق میں ضروری جمعیت کے ساتھ چھوڑ کر سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ بن جراح دمشق سے مقام فحل کی جانب بڑھے‘ جہاں ہرقل کا نامی سردار سقلاربن مخراق لاکھوں آدمیوں کا لشکر لیے ہوئے پڑا تھا‘ دمشق سے روانہ ہوتے وقت سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو مقدمۃ الجیش کا‘ شرجیل بن حسنہ کو قلب کا‘ عمروبن عاص کو میمنہ کا‘ ضرار بن ازور رضی اللہ عنہ کو سواروں اور عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ کو پیادوں کا افسر مقرر کیا اور خود میسرہ میں رہے۔ فحل کے قریب پہنچ کر اسلامی لشکر اپنے اپنے سرداروں کی ماتحتی میں مناسب موقعوں پر خیمہ زن ہوا‘ آدھی رات کے وقت رومیوں نے مسلمانوں کے قلب لشکر پر حملہ کیا‘ شرجیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ مقابل ہوئے‘ لڑائی کا شور و غل سن کر تمام مسلمان سردار اپنا اپنا لشکر لے کر میدان میں آ گئے‘ اور ہنگامہ زد و خورد پوری شدت اور تیزی سے گرم ہوا‘ یہ لڑائی کئی دن تک جاری رہی‘ جس طرح دن کو معرکہ کارزار گرم رہتا تھااس طرح رات کو بھی جاری رہتا تھا‘ آخر رومی سردار سقلار میدان جنگ میں اسی ہزار رومیوں کو مسلمانوں کے ہاتھ سے قتل کرا کر خود بھی مقتول ہوا‘ بقیتہ السیف نے راہ فرار اختیار کی اور مسلمانوں کے لیے بے شمار مال غنیمت چھوڑ گئے‘ فتح فحل کے بعد اسلامی لشکر بسیان کی جانب بڑھا۔ ۱؎ عیسائیوں کی تاریخ ایسی ایک بھی مثال پیش نہیں کر سکتی۔ ان کی تاریخ تو بد عہدیوں‘ احسان فراموشیوں اور سازشوں سے بھری ہوئی ہے۔ وہ تو قرون اولیٰ کے مسلمانوں کے جنگی اخلاق کی گرد کو بھی نہیں پا سکتے کجا کہ وہ ایسی کوئی مثال پیش کریں۔ جبکہ مسلمانوں کی تاریخ ایسی بے شمار مثالوں اور واقعات سے بھری ہوئی ہے۔ الحمدللہ فتح بیسان بیسان کے قریب پہنچ کر معلوم ہوا کہ یہاں بھی سخت مقابلہ کرنا پڑے گا‘ اسلامی لشکر