تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سبحستان کی طرف ان لوگوں کی توجہ کا حال سن کر عبدالرحمن بن جروطائی کو ان کے استیصال کی غرض سے روانہ کیا‘ ان لوگوں سے جب مقابلہ ہوا تو لڑائی میں عبدالرحمن طائی شہید ہوئے‘ یہ خبر سن کر ربعی بن کاس چار ہزار کی جمعیت لے کر روانہ ہوئے‘ انہوں نے ان اوباشوں کو شکست دے کر منتشر کر دیا‘ اسی عرصہ میں جنگ صفین کے لیے طرفین سے تیاریاں شروع ہو گئیں‘ اور ان مسلم نما یہودیوں یعنی گروہ سبائیہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں شامل ہونا ضروری سمجھا‘ چنانچہ وہ ہر ایک ممکن اور مناسب طریقے سے آ آ کر لشکر علی رضی اللہ عنہ میں شامل ہو گئے۔ کوفہ کا دارالخلافہ بننا جنگ جمل سے فارغ ہو کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لیے سب سے بڑا کام ملک شام کو قابو میں لانا اور سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے بیعت لینا تھا‘ اس کام کے لیے انہوں نے کوفہ کو اپنا قیام گاہ بنانا مناسب سمجھا‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں سب سے بڑی طاقت کوفیوں کی تھی اس لیے بھی کوفہ کو دارالخلافہ بنانا مناسب تھا‘ نیز یہ کہ مدینہ کے مقابلہ میں مدینہ کے شرفاء یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہ میں سے اکثر صوبوں کی حکومت پر مامور ہو ہو کر باہر چلے گئے تھے‘ اور ہر ایک شخص جو کسی صوبہ کا عامل ہو کر مدینہ سے روانہ ہوتا تھا وہ اپنے ہمراہ ایک جمعیت اپنے عزیزوں اور دوستوں کی ضرور لے کر جاتا تھا تاکہ وہاں رعب قائم رہے اور انتظام ملکی میں سہولت ہو‘ لہذا مدینہ منورہ کی جمعیت عہد عثمانی میں منتشر ہو کر کمزور ہو چکی تھی‘ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانہ میں مدینہ کو سب سے بڑی اور مرکزی طاقت بنا رکھا تھا اور اسی کی خلافت اسلامیہ کو ضرورت بھی تھی‘ لیکن اب وہ حالت باقی نہ رہی تھی۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پہلے خلفاء کو میدان جنگ میں جانے اور سپہ سالاری کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی تھی‘ لیکن سیدنا علی رضی اللہ عنہ مجبور ہو کر گئے تھے کہ خود فوجیں لے کر میدان میں نکلیں اور ایک سپہ سالار کی حیثیت سے کام کریں‘ یہی مجبوری تھی کہ جو آخرکار نظام خلافت کے لیے بے حد مضر ثابت ہوئی‘ لہذا اس حالت میں ان کے لیے بجائے مدینہ کے کوفہ کا قیام زیادہ مناسب اور ضروری تھا‘ چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بصرہ میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو حاکم مقرر کر کے خود مع لشکر کوفہ کی طرف تشریف لے گئے۔ اس جگہ یہ بات بھی بتا دینا ضروری ہے کہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ اور بلوائیوں میں سے ایک حصہ عبداللہ بن سبا کی کوششوں سے مائوف ہو کر اس کا معتقد بن چکا تھا اور اس کو عبداللہ بن سبا کی جماعت کہہ سکتے تھے‘ لیکن اس سبائی جماعت میں چونکہ بہت سے فریب خوردہ مسلمان اپنی سادہ لوحی سے شریک تھے‘ لہذا اصل سبائی جماعت جو بطور تخم کے کام کرتی تھی‘ وہ صرف چند افراد پر مشتمل تھی‘ اور وہ جس وقت جیسی ضرورت سمجھتی تھی اپنے گروہ میں اسی قسم کے لوگوں کو شامل کر کے انہیں میں سے کسی کو سردار بنا لیتی تھی‘ اور جن لوگوں سے پہلے کام لے رہی تھی ان کو چھوڑ دیتی تھی‘ یہی سبب تھا کہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے قتل میں سبائی جماعت نے تمام بلوائیوں سے کام لیا اور جنگ جمل تک ان کے بڑے حصے سے کام لیتی رہی‘ جنگ جمل کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی مخالفت اور عیب چینی کا کام جب شروع