تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
قبیلے سے تھا اور نصرانی مذہب رکھتا تھا‘ وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر نہ ہوا‘ اس کی طرف سے علامات سر کشی نمایاں ہوئیں‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو ایک دستہ فوج کے ہمراہ روانہ کیا اور فرمایا کہ اکیدر تم کو نیل گائے کا شکار کرتا ہوا ملے گا اس کو گرفتار کر لائو‘ سیدنا خالد بن ولید اپنے ہمراہی سواروں کو لے کر روانہ ہوئے‘ رات بھر کی مسافت کے بعد صبح ہوتے اکیدر کے قلعہ کے متصل پہنچے۔ ادھر اکیدر کو ایک عجیب واقعہ پیش آیا‘ گرمی کا موسم ‘ چاندنی رات اکیدر اپنی بی بی کے ساتھ محل کی چھت پر آرام کر رہا تھا‘ ایک نیل گائے نے جنگل کی طرف سے آ کر محل کے دروازے کو اپنے سینگوں سے کھرچنا شروع کیا‘ اکیدر کی بیوی نے حیرت زدہ ہو کر اپنے شوہر کو متوجہ کیا‘ اکیدر اسی وقت اپنا گھوڑا تیار کرا کر اور اپنے بھائی حسان نامی کو ہمراہ لے کر اس نیل گائے کا شکار کرنے کے لیے‘ نکلا وہ ابھی نیل گائے کے پیچھے تھوڑی ہی دور چلا ہو گا کہ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ معہ اپنے ہمراہیوں کے پہنچ گئے اور اس کو گھیر لیا‘ اکیدر اور اس کے بھائی نے مقابلہ کیا‘ اکیدر زندہ گرفتار ہو گیا اور اس کا بھائی لڑکر مارا گیا۔ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اکیدر کی ریشمی خوبصورت قبا اتار کر فوراً ایک سوار کے ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں آگے روانہ کی اور خود اس کو لے کر بعد میں حاضر خدمت ہوئے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ۱؎ صحیحبخاریکتابالمغازیحدیث۴۴۱۹۔صحیحمسلمکتابالزھد۔ نے اکیدر کی جان بخشی فرمائی‘ اس نے اطاعت اور جزیہ کی ادائیگی کا اقرار کیا اور اپنے قلعہ میں واپس آ کر دو ہزار اونٹ‘ اور آٹھ سو گھوڑے‘ چار سو زرہیں‘ چار سو نیزے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں بطور پیش کش بھیجے اور صلح نامہ لکھا کہ مطمئن ہوا۔۱؎ مسجد ضرار جلا دی گئی سرحد شام کے حاکموں اور نائبوں سے اطاعت اور امن و امان رکھنے کا اقرار لے کر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مشورہ کیا‘ سب کی رائے یہی ہوئی کہ اب اور زیادہ قیام اور انتظار کی ضرورت نہیں ہے‘ ہرقل اور اس کی فوجیں مرعوب ہو چکی ہیں اگر ان میں ہمت ہوتی تو مقابلہ پر آ جاتے‘ آخرکار آپ صلی اللہ علیہ و سلم تبوک سے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے‘ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ کے قریب پہنچے اور مدینہ صرف ایک گھنٹہ کے راستہ پر رہ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مالک بن دخشم سالمی رضی اللہ عنہ اور معن بن عدی عجلی رضی اللہ عنہ کو منافقوں کی بنائی ہوئی مسجد کے جلانے اور مسمار کرنے کے لیے حکم دیا‘ کیونکہ خدائے تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرما دی تھیں {وَ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا}۲؎ اور اس طرح منافقین کے کید سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم واقف ہو چکے تھے‘ چنانچہ مسجد ضرار کا نام و نشان مٹا دیا گیا‘۳؎ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ماہ رمضان ۹ ھ میں داخل مدینہ ہوئے‘ اس سفر یعنی غزوہ تبوک میں دو مہینے صرف ہوئے۔ سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ ‘ مرارہ بن الربیع رضی اللہ عنہ ‘ ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ تین صحابی ایسے تھے جو صالحین صحابہ رضی اللہ عنھم میں سے تھے ‘ مگر