تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حمق‘ عمیر بن جنابی‘ سودان بن حمران‘ غافقی تھے‘ کنانہ بن بشر نے آتے ہی سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ پر تلوار چلائی‘ ان کی بیوی نائلہ نے فوراً آگے بڑھ کر تلوار کو ہاتھ سے روکا‘ ان کی انگلیاں کٹ کر الگ جا پڑیں پھر دوسرا وار کیا‘ جس سے آپ شہید ہو گئے‘ اس وقت آپ قرآن کی تلاوت میں مصروف تھے‘ خون کے قطرات قرآن شریف کی اس آیت پر گرے {فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُ وَ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ} (البقرۃ : ۲/۱۳۷) عمرو بن حمق نے آپ پر نیزے کے نو زخم پہنچائے۔ عمیر بن جنابی نے آگے بڑھ کر ٹھوکریں ماریں جس سے آپ کی پسلیاں ٹوٹ گئیں‘ وہ ہر ٹھوکر لگاتے ہوئے کہتا جاتا تھا‘ کیوں تم نے ہی میرے باپ کو قید کیا تھا جو بے چارہ حالت قید ہی میں مر گئے تھے‘ گھر کے اندر یہ قیامت برپا ہو گئی‘ چھت والوں اور دروازے والوں کو خبر ہی نہ ہوئی‘ آپ کی بیوی نائلہ نے آوازیں دیں تو لوگ چھت پر سے اترے اور دروازے کی طرف سے اندر متوجہ ہوئے‘ بلوائی اپنا کام کر چکے تھے‘ وہ بھاگے‘ بعض ان میں سے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے غلاموں کے ہاتھ سے مارے گئے‘ اب نہ کسی کو دروازے پر رہنے کی ضرورت تھی نہ کسی کی حفاظت باقی رہی تھی‘ چاروں طرف سے بلوائیوں بدمعاشوں نے زور کیا‘ گھر کے اندر داخل ہو کر تمام گھر کا سامان لوٹ لیا‘ حتی کہ جسم کے کپڑے تک بھی نہ چھوڑے‘ اس بدامنی اور ہلچل کے عالم میں بجلی کی طرح تمام مدینہ میں عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر پھیل گئی۔ یہ حادثہ ۱۸ ذی الحجہ ۳۵ ھ یوم جمعہ کو وقوع پذیر ہوا‘ تین دن تک سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی لاش بے گورو کفن پڑی رہی‘ آخر حکیم بن حزام اور جبیر بن مطعم دونوں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس گئے‘ انہوں نے دفن کرنے کی اجازت دی‘ رات کے وقت عشاء و مغرب کے درمیان جنازہ لے کر نکلے‘ جنازہ کے ساتھ زبیر‘ حسن‘ ابوجہم بن حذیفہ‘ مردان وغیرہ تھے‘ بلوائیوں نے جنازہ کی نماز پڑھنے اور دفن کرنے میں بھی رکاوٹ پیدا کرنا چاہی مگر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا تو انہوں نے سختی سے ان کو منع کیا‘ جبیر بن مطعم نے جنازہ کی نماز پڑھائی‘ بغیر غسل کے انہیں کپڑوں میں جو پہنے ہوئے تھے دفن کئے گئے۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے وقت مندرجہ ذیل عامل و امیر ممالک اسلامیہ میں مامور تھے‘ عبداللہ بن الحضرمی مکہ میں‘ قاسم بن ربیعہ ثقفی طائف میں‘ یعلیٰ بن منیہ صنعاء یمن میں ‘ عبداللہ بن ربیعہ ھمدان میں‘ عبداللہ بن عامر بصرہ میں ‘ معاویہ بن ابی سفیان ملک شام میں‘ عبدالرحمن بن ابی خالد حمص میں‘ حبیب بن مسلمہ قنسرین میں (ابوالاعور سلمی اردن میں‘ عبداللہ بن قیس فزاری بحرین میں‘ علقمہ بن حکیم کندی معاویہ کی طرف سے فلسطین میں‘ ابوموسیٰ اشعری کوفہ میں امام اور قعقاع بن عمروسالار لشکر تھے‘ جابر مزنی اور سماک انصاری دونوں خراج سواد پر مامور تھے‘ جریر بن عبداللہ قرقیسیا میں‘ اشعث بن قیس آذربائیجان میں‘ سائب بن اقرع اصفہان میں‘ گورنر مقرر تھے مدینہ منورہ میں بیت المال کے افسر عقبہ بن عمرو اور قضا پر زید بن ثابت مامور تھے۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ ۸۲ سال کی عمر میں بارہ سال خلافت کر کے فوت ہوئے جنتہ البقیع کے قریب مدفون ہوئے‘ آپ کے کل گیارہ بیٹے اور چھ بیٹیاں ہوئی تھیں۔ خلافت عثمانی پر ایک نظر