تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کرتے میں چمڑے کے پیوند لگا کر پہننا معمولی بات تھی‘ بعض اشخاص چمڑے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو سوئی کے ٹانکوں سے جوڑ کر چادر بنا لیتے تھے اور یہ چادر بلا تکلف اوڑھنے بچھانے کے لیے کام آتی تھی‘ اونٹ اور بھیڑ کے بالوں سے بھی کپڑے بنے اور تیار کئے جاتے تھے اور زیادہ تر ان سے کمبلوں کے خیمے اور فرش بنائے جاتے تھے‘ ڈھیلے ڈھیلے اور نیچے کرتے‘ تہہ بند اور سر پر رومال یا عمامہ کا رواج تھا‘ عود‘ عنبر‘ لوبان کافور وغیرہ خوشبویات سے بھی وہ واقف تھے۔ اہل عرب کی خوراک بھی بہت سادہ اور بے تکلفانہ ہوتی تھی‘ خراب اور بدمزہ کھانوں پر بھی وہ قناعت کر لیتے تھے‘ گوشت کو سب سے زیادہ قیمتی اور لذیذ غذا سمجھتے تھے‘ دودھ گوشت اور چنیا وغیرہ غلہ عام طور پر تمام ملک کی غذا تھی ‘ پنیر ستو‘ کھجور روغن زیتون حریرہ وغیرہ کا بھی استعمال کرتے تھے‘ ٹڈیاں بھی جو اس ملک میں بکثرت ہوتی ہیں کھاتے تھے آٹے کو چھلنی میں چھاننے کا عام رواج نہ تھا‘ بلا چھنے ہوئے آٹے کی روٹی پکا کر کھاتے تھے‘ سوسمار بھی پکا کر خوب مزے سے کھاتے تھے‘ کھانا کھانے کے آداب بھی بہت ادنی درجے کے تھے جن کا اندازہ ان احکام نبوی صلی اللہ علیہ و سلم سے بخوبی ہو سکتا ہے جو کھانے پینے کے متعلق احادیث نبوی میں موجود ہیں اور جن میں بہت سی بدتمیزیوں سے منع کیا گیا ہے اور انسان کو دسترخوان پر بسیار خوری‘ بے شرمی‘ کثیف المزاجی اور اناپ شناپ باتوں سے باز رہنے کی تاکید کی گئی ہے۔ غارت گری جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے عرب میں دو قسم کے لوگ تھے ایک وہ جو شہروں اور بستیوں میں آباد تھے‘ دوسرے وہ جو خانہ بدوشی کی حالت میں پھرتے تھے اور تعداد میں زیادہ تھے‘ شہری لوگوں میں اگرچہ حقوق ہمسایہ کی رعایت‘ امانت و دیانت داری وغیرہ صفات تھے مگر تجارت میں مکرو دغا دھوکہ بازی وغیرہ عیوب ان میں بھی موجود تھے‘ خانہ بدوش یا بدوی رہزنی اور ڈاکہ ڈالنے میں بے حد مشاق تھے‘ مسافروں کو لوٹ لینے اور زبردستی کسی کا مال چھین لینے کی سب کو عادت تھی‘ اگر کسی شخص کو تنہا سفر میں پاتے تو اس کا مال چھین لیتے اور اس کو غلام بنا کر بیچ ڈالتے‘ راستوں میں جو کنویں بنے ہوئے ہوتے ان کو گھاس وغیرہ سے چھپا دیتے کہ مسافر کو پانی نہ مل سکے‘ اور پیاس سے مر جائے تو بلازحمت اس کا مال ہاتھ آئے‘ چوری میں بھی خوب مشاق تھے بعض بعض تو چوری میں اس قدر مشہور تھے کہ ان کے نام بطور ضرب المثل مشہور ہوئے‘ ان چوروں کو ذئوبان العرب (عرب کے بھیڑئیے) بھی کہا جاتا تھا۔ تکبر تکبر کی رذیل صفت بھی عرب جاہلیت میں حد کو پہنچی ہوئی تھی‘ جذیمہ ابرش کے تکبر کی یہ حالت تھی کہ کسی کو اپنا مشیرو وزیر اور ہم نشیں نہیں بنایا‘ وہ کہتا تھا کہ فرقدین ستارے میرے ہم نشیں ہیں‘بنی مخزوم بھی تکبر کے لیے کافی شہرت رکھتے تھے‘ اسی طرح بہت سے قبائل اس رذیل صفت میں ممتاز اور مشہور عوام تھے‘ لیکن اس عیب سے خالی کوئی بھی قبیلہ نہ تھا‘ اسی تکبر کا نتیجہ تھا کہ انبیاء و رسل اور ہادیان برحق کے مواعظ حسنہ سننے اور احکام الہی کی فرماں برداری کرتے تو عیب جانتے تھے۔ شترکینہ اگر کسی قاتل یا دشمن پر اس کی زندگی میں دسترس حاصل نہ ہو سکتی تو اس کے بیٹے