تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
لو‘ چنانچہ تمام سردار قریش نے مل کر اس چادر کے کنارے چاروں طرف سے پکڑ کر پتھر کو اٹھایا‘ جب پتھر اس مقام پر پہنچ گیا جہاں اس کو نصب کرنا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے چادر سے اٹھا کر وہاں نصب کر دیا‘ کسی کو کوئی شکایت باقی نہ رہی اور سب آپس میں رضا مند رہے۔ اس واقعہ میں عتبہ بن ربیعہ بن عبدشمس‘ اسود بن مطلب بن اسد بن عبدالغریٰ‘ ابوحذیفہ بن مغیرہ بن عمر بن مخزوم اور قیس بن عدی السہمی چار شخص بہت پیش پیش تھے اور کسی طرح دوسرے کے حق میں معاملہ کو چھوڑنا نہ چاہتے تھے۔ اس فیصلہ سے چاروں بہت خوش اور مسرور تھے‘ ۱؎اگر ملک عرب میں یہ جنگ چھڑ جاتی تو یقینا یہ تمام ان لڑائیوں سے زیادہ ہیبت ناک اور تباہ کن جنگ ثابت ہوتی جو اب تک زمانہ جاہلیت میں ہو چکی تھیں‘ جس زمانہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس حجراسود والے جھگڑے کا فیصلہ کیا ہے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عمر ۳۵ سال کی تھی۔ غریبوں کی کفالت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عزت اور قبولیت مکہ میں غالباً سب پر فائق تھی۔ کوئی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا دشمن نہ تھا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت کرنے والے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو عزت کی نگاہ سے دیکھنے والے بہت تھے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی دانائی خوش اطواری ‘ راست کرداری اور دیانت و امانت کا تمام ملک میں چرچاتھا‘ تجارت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا پیشہ تھا‘ اور سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہ سے شادی کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم فارغ البالی سے زندگی بسر کرتے تھے۔ ایک مرتبہ قحط کے ایام تھے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا ابوطالب عیال دار آدمی تھے‘ ان کی عزت و عظمت بزرگ خاندان اورسردار بنی ہاشم ہونے کے سبب بہت تھی مگر افلاس و تنگی کے ساتھ ان کی گذر اوقات ہوتی تھی‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ابو طالب کی عسرت و تنگی کا حال دیکھ کراپنے دوسرے چچا عباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب سے کہا کہ آج کل قحط کا زمانہ ہے اور ابوطالب کا کنبہ بڑا ہے‘ مناسب یہ ہے کہ ان کے ایک لڑکے کو آپ اپنے گھر لے آئیں اور ایک کو میں لے آئوں‘ اس طرح ان کا بوجھ ہلکا ہو جائے گا‘ عباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب نے اس مشورہ کو پسند کیا‘ اور دونوں ابوطالب کی خدمت میں پہنچے اور اپنی خواہش بیان کی‘ ابوطالب نے کہا کہ عقیل کو تو میرے پاس رہنے دو اور باقیوں کو اگر تمہاری خواہش ہے تو لے جائو چنانچہ جعفر رضی اللہ عنہ بن ابوطالب کو تو عباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب اپنے گھر لے گئے‘ اور علی رضی اللہ عنہ ابن ابوطالب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے گھر لے آئے۔ یہ واقعہ اسی سال کا ہے جس سال تعمیر کعبہ ہوئی یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی عمر پینتیس سال کی تھی‘ ۱؎ سیرت ابن ہشام‘ صفحہ ۹۹ تا ۱۰۱۔ نیز دیکھیے تفسیر ابن کثیر‘ تفسیر آیت {وَاِذْ یَرْفَعُ اِبْرَاھِیْمُ الْقَوَاعِدَ} (البقرۃ : ۲:۱۲۷) اور سیدنا علی کرم اللہ وجہ کی عمر پانچ سال کے قریب تھی‘ مگر یہ تعمیر کعبہ کے بعد واقعہ سے پہلے کا ہے۔