تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اور کہا کہ ایک قبیلہ خزرج کا شخص پٹ رہا ہے اور وہ تمہارے نام لے کر دہائی دے رہا ہے‘ انہوں نے پوچھا کہ اس کا کیا نام ہے؟ اسی شخص نے بتایا کہ اس کا نام سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ ہے‘ وہ بولے ہاں اس کا ہم پر احسان ہے‘ ہم تجارت کے لئے اس کے یہاں جاتے ہیں اور اسی کی حفاظت میں اس کے یہاں ٹھہرتے ہیں‘ چنانچہ ان دونوں نے مجھے آ کر چھڑایا‘ اور میں چھوٹتے ہی مدینہ (یثرب) کی طرف روانہ ہو گیا۔۲؎ اس جگہ یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم کو بیعت عقبہ ثانیہ سے بہت پہلے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بتایا گیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ہجرت کرنا پڑے گی اور ایک مرتبہ خواب ۱؎ سیرت ابن ہشام‘ ص ۲۲۰۔ زاد المعاد بہ حوالہ الرحیق المختوم۔ ص ۲۱۶۔ ۲؎ سیرت ابن ہشام‘ ص ۲۲۰ و ۲۲۱۔ زاد المعاد بہ حوالہ الرحیق المختوم ص ۲۱۸۔ میں مقام ہجرت کا نظارہ بھی دکھا دیا تھا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دیکھا تھا کہ وہ کھجوروں والی زمین ہے یعنی وہاں کھجوریں بکثرت ہیں‘ یہ خواب دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا خیال تھا کہ ہم کو یمامہ کے علاقہ میں ہجرت کرنی پڑے گی ۔۔۔۔۔۔ کیونکہ وہاں بھی کھجوریں بکثرت ہوتی ہیں‘ اور بعد میں اب معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو یثرب (مدینہ)کی طرف ہجرت کرنی ہو گی۔ مدینہ کی طرف ہجرت کا اذن عام عقبہ ثانیہ کی بیعت کے بعد قریش کے مظالم نے مسلمانوں کے لئے مکہ کی رہائش غیر ممکن بنا دی تھی‘ جس کا اندازہ کرنے کے لئے ذیل کے واقعات کافی ہیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم نے مظالم قریش کو حد سے متجاوز دیکھ کر تمام مسلمانوں کو جو مکہ میں موجود تھے اجازت دے دی کہ اپنی جان بچانے کے لئے مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ چلے جائیں‘ لوگ یہ حکم پاتے ہی اپنے گھروں کو خالی چھوڑ چھوڑ کر عزیزوں رشتہ داروں سے جدا ہو کر مدینہ کی طرف جانے لگے‘ قریش نے جب دیکھا کہ یہ لوگ یہاں سے ترک سکونت کرنے پر آمادہ ہیں اور مدینہ میں جا کر اطمینان و فراغت سے زندگی بسر کریں گے تو ان کو یہ بھی گوارا نہ ہوا‘ ہجرت کرنے والوں کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے لگے۔ سیدنا ام سلمہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں کہ میرے شوہر ابو سلمہ رضی اللہ عنہ نے ہجرت کا ارادہ کیا‘ مجھ کو اونٹ پر بٹھایا‘ میری گود میں میرا چھوٹا بچہ سلمہ تھا‘ جب ہم روانہ ہوئے تو میرے قبیلہ کے لوگوں نے ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کو آ کر گھیر لیا اور کہا کہ تو تو جا سکتا ہے لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ تو ہماری لڑکی کو لے جائے‘ اتنے میں ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کے قبیلے والے بھی آ گئے‘ انہوں نے کہا کہ یہ نہیں جاتی تو بچہ ہمارے قبیلہ کا بچہ ہے اسے تم لوگ نہیں لے جا سکتے‘ چنانچہ بنو عبدالاسد تو بچہ کو چھین کے لے گئے اور بنو مغیرہ ام سلمہ رضی اللہ عنھا کو لے گئے اور ابوسلمہ رضی اللہ عنھا تنہا مدینہ کو چلے گئے‘ ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے خاوند اور بچہ دونوں جدا ہو گئے‘ اور ابوسلمہ رضی اللہ عنہ نے بیوی اور بیٹے دونوں کو چھوڑ کر ہجرت کا ثواب حاصل کیا۔۱؎ سیدنا صہیب رومی رضی اللہ عنہ جب مکہ سے جانے لگے تو ان کا تمام مال و اسباب مکہ والوں نے چھین لیا اور ہزاروں روپے کا مال و زر چھین کر بہ یک بینی و دوگوش مدینہ کی طرف جانے دیا۔۲؎