تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
روانہ کیا‘ اس خط کے لفافہ پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا پتہ صاف لکھا ہوا تھا یعنی من معاویہ رضی اللہ عنہ الی علی رضی اللہ عنہ ‘ یہ خط لے کر دونوں قاصد ماہ ربیع الاول ۳۶ ھ کے آخری ایام میں مدینہ پہنچے۔ قاصد نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر خط پیش کیا‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے لفافہ کو کھولا تو اس کے اندر سے کوئی خط نہ نکلا‘ آپ نے غصہ سے قاصد کی طرف دیکھا‘ قاصد نے کہا کہ میں قاصد ہوں مجھ کو جان کی امان ہے‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہاں تجھ کو امان ہے‘ اس نے کہا کہ ملک شام میں کوئی آپ کی بیعت نہ کرے گا‘ میں نے دیکھا ہے کہ ساٹھ ہزار شیوخ عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خون آلودہ قمیص پر رو رہے تھے‘ وہ قمیص لوگوں کو مشتعل کرنے کی غرض سے جامع دمشق کے منبر پر رکھی ہے‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا وہ لوگ مجھ سے خون عثمان رضی اللہ عنہ کا بدلہ طلب کرتے ہیں حالانکہ خون عثمان رضی اللہ عنہ سے بری ہوں‘ اللہ تعالیٰقاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے سمجھے‘ یہ کہہ کر قاصد کو معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف واپس کر دیا۔ سبائیوں کی گمراہی بلوائیوں اور سبائیوں نے اس قاصد کو گالیاں دے کر مارنا چاہا لیکن اہل مدینہ کے بعض اشخاص نے اس کو آزار پہنچنے سے بچایا اور وہ مدینہ سے روانہ ہو کر دمشق پہنچا‘ جریر بن عبداللہ کی نسبت بھی بلوائیوں کے سرداروں نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے ساز باز کرنے کا الزام لگایا‘ کیونکہ وہ دیر تک شام میں رہے تھے‘ اور فوراً واپس نہ آ سکے تھے‘ جریر اس الزام کو سن کر کبیدہ خاطر ہوئے‘ اور مدینہ سے قرقیسیا کی طرف چلے گئے‘ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو جب یہ خبر لگی تو انہوں نے قرقیسیا میں اپنے قاصد بھیج کر باصرار جریر رضی اللہ عنہ کو اپنے پاس بلوایا۔ شام کے ملک پر حملہ کی تیاری مدینہ والوں کو جب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے قاصدوں کے آنے جانے اور تعلقات کے منقطع ہونے کا حال معلوم ہوا‘ تو اب ان کو فکر ہوئی‘ کہ دیکھئے آپس میں کہیں اور عظیم الشان کشت و خون نہ ہو‘ چنانچہ اہل مدینہ نے زیاد بن حنظلہ تمیمی کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی مجلس میں بھیجا کہ ان کا عندیہ جنگ کے متعلق معلوم کر کے ہم کو مطلع کرے‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے زیاد سے مخاطب ہو کر کہا کہ تیار ہو جائو‘ اس نے کہا کہ کس کام کے لیے‘ آپ نے فرمایا ملک شام پر حملہ آور ہونے کے لیے‘ زیاد نے عرض کیا کہ نرمی اور مہربانی سے کام لینا تھا‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نہیں‘ باغیوں کی سزا دہی ناگزیر ہے۔ اہل مدینہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ضرور ملک شام پر چڑھائی کرنے والے ہیں تو سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ دونوں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم عمرہ کرنے مکہ معظمہ کو جاتے ہیں ہم کو مدینہ سے جانے کی اجازت دی جائے‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان دونوں حضرات کا مدینہ میں زیادہ روکنا اورنظر بند رکھنا مناسب نہ سمجھ کر اجازت دے دی اور مدینہ میں اعلان کرا دیا کہ ملک شام پر فوج کشی کرنے کے لیے لوگ تیار ہو جائیں اور اپنا اپنا سامان درست کر لیں‘ پھر ایک خط عثمان بن حنیف کے پاس بصرہ کی جانب‘ ایک ابوموسیٰ کے پاس کوفہ کی جانب‘ اور قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کے پاس