تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اپنی شہرہ آفاق کتاب الرحیق المختوم میں صفحہ ۱۸۱ و ۱۸۲ پر درج کی ہے۔ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ کو جھک کر چوما۔ عتبہ نے دور سے غلام کی اس حرکت کو دیکھا‘ جب عداس واپس گیا تو عتبہ نے اس سے کہا کہ اس شخص کی باتوں میں نہ آ جانا اس سے تو تیرا ہی دین بہتر ہے۔ تھوڑی دیر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عتبہ کے باغ میں آرام کیا پھر وہاں سے اٹھ کر چل دئیے وہاں سے روانہ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم مقام نخلہ میں پہنچے اور رات کو کھجوروں کے ایک باغ میں قیام فرمایا‘ اسی جگہ بعض جنات کے سرداروں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو قرآن شریف پڑھتے ہوئے سنا۱؎ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لائے۔ مکہ کو واپسی نخلہ سے روانہ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کوہ حرا پر تشریف لائے اور یہاں مقیم ہو کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بعض سرداران قریش کے پاس پیغام بھیجا مگر کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنی ضمانت اور پناہ میں لینے کے لئے تیار نہ ہوا۔ مطعم بن عدی کے پاس جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا پیام پہنچا تو وہ بھی اگرچہ مشرک اور کافر تھا مگر عربی شرافت اور قومی حمیت کے جذبہ سے متاثر ہو کر فوراً اٹھ کھڑا ہوا اور سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس سیدھا کوہ حرا پر پہنچ کر اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنے ہمراہ لے کر مکہ آیا‘ مطعم کے بیٹے ننگی تلواریں لے کر خانہ کعبہ کے سامنے کھڑے ہو گئے‘ سیدنامحمد صلی اللہ علیہ و سلم نے خانہ کعبہ کا طوائف کیا‘ اس کے بعد مطعم اور اس کے بیٹوں نے ننگی تلواروں کے سایہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو گھر تک پہنچا دیا۔ قریش نے مطعم سے پوچھا کہ تم کو محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے کیا واسطہ ہے‘ مطعم نے جواب دیا کہ مجھ کو واسطہ تو کچھ نہیں‘ لیکن میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا حمایتی ہوں‘ جب تک وہ میری حمایت میں ہیں کوئی نظر بھر کر ان کو نہیں دیکھ سکتا‘ مطعم کی یہ ہمت و حمایت دیکھ کر قریش کچھ خاموش سے ہو کر رہ گئے۔۲؎ ایک روایت میں ہے کہ جب سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلم طائف سے اس مذکورہ بالا حالت میں نکلے تو ایک فرشتہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور کہا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم حکم دیں تو میں پہاڑ اٹھا کر اہل طائف پر ڈال دوں‘ یہ سب کے سب فنا ہو جائیں گے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ نہیں ہرگز نہیں‘ مجھے امید ہے کہ اگر یہ ۱؎ جنات کی ایک جماعت نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے جو آیات قرآنی سنی تھیں‘ وہ سورۃ الاحقاف : ۴۶ کی آیات ۲۹ تا ۳۱ اور سورہ جن ۷۲ کی آیات ۱ تا ۱۵ ہیں۔ ۲؎ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سفر طائف اور پھر واپسی کی یہ تفصیلات مختلف کتب سیرت میں موجود ہیں۔ سیرت ابن ہشام‘ ص ۲۰۶ تا ۲۰۸‘ زاد المعاد ‘ ص ۶۸۹ تا ۶۹۲‘ رحمۃ للعالمین ۱: ۱۰۰ تا ۱۰۲۔ لوگ اسلام نہ لائے تو ان کی اولاد ضرور خادم اسلام بنے گی‘ اور ان کی آئندہ نسلیں سب مسلمان ہوں گی میں ان کی ہلاکت کو پسند نہیں کرتا۔۱؎ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے نکاح ‘ معراج نبوی صلی اللہ علیہ و سلم اسی سال یعنی ماہ شوال ۱۰ نبوی (حاشیہ ۱) میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدہ عائشہ