تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی زبان سے یہ سن کرکہا لناعزیلاعزیلکم(عزیٰ بت ہمارا ہے تمہارا نہیں ہے) عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کے موافق جواب دیا اللہ مولنا ولا مولیٰ لکم(اللہ ہمارا والی ہے تمہارا والی نہیں ہے) ابوسفیان نے کہا کہ یہ ’’لڑائی جنگ بدر کے برابر ہو گئی یعنی ہم نے جنگ بدر کا بدلہ لے لیا‘ ۱؎سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کے موافق جواب دے دیا’’نہیں برابری نہیں ہوئی کیونکہ ہمارے مقتولین جنت میں ہیں اور تمہارے مقتولین دوزخ میں‘‘ اس کے بعد ابوسفیان خاموش ہو گیا‘ پھر اس نے بلند آواز سے کہا ’’اب ہمارا تمہارا مقابلہ آئندہ سال پھر بدر میں ہوگا‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا کہ کہہ دو نعم ھو بیننا و بینکم موعد(اچھا ہم کو یہ وعدہ منظور ہے)ابوسفیان یہ باتیں کہہ سن کر وہاں سے چل دیا‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو ابوسفیان کے پیچھے بھیجا کہ ان کی روانگی کا نظارہ دیکھو‘ اگر انہوں نے اونٹوں پر کجاوے نہیں کسے تو مدینہ پر حملہ کا قصد رکھتے ہیں‘ اگر انہوں نے مدینہ پر حملہ کا قصد کیا تو ہم ان پر ابھی حملہ آور ہوں گے‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ گئے اورتھوڑی دیر میں واپس آ کر خبر لائے کہ وہ اونٹوں پر سوار ہو کر گھوڑوں کو کوتل رکھے ہوئے ہیں۔ میدان جنگ کا نظارہ اس کے بعد مطمئن ہو کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم پہاڑی سے اترے‘ میدان میں شہداء کی لاشوں کو دفن کیا گیا‘ ۶۵ انصار اور چار مہاجرین شہید ہوئے تھے‘ کافروں نے بعض شہدا کی لاشوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے تھے‘ ہند بنت عتبہ زوجہ ابوسفیان نے موقع پا کر سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کی لاش کا مثلہ کیا یعنی ان کے کان‘ ناک وغیرہ کاٹ ڈالے تھے‘ آنکھیں نکال لی تھیں‘ سینہ چاک کر کے جگر کاٹ کر نکالا اور اس کو دانتوں سے چبایا‘ مگر نگل نہ سکی اگل دیا اسی لیے جگر خوارہ مشہور ہوئی‘ سیدنا زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ کی والدہ سیدنا صفیہ رضی اللہ عنھا جو سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی حقیقی بہن تھی‘ بھائی کی لاش کو دیکھنے آئیں‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ان کو لاش کے پاس جانے سے روکو‘ انہوں نے منع کیا تو سیدنا صفیہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا کہ مجھ کو معلوم ہو چکا ہے کہ میرے بھائی کی لاش کا مثلہ کیا گیا ہے‘ میں نوحہ کرنے نہیں آئی میں صبر کروں گی اور دعائے مغفرت مانگوں گی‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سن کر اجازت دے دی‘ انہوں نے ۱؎ صحیحبخاریکتابالمغازیحدیث۴۰۴۳۔ اپنے بھائی کی لاش اور ان کے جگر کے ٹکڑے زمین پر پڑے ہوئے دیکھے‘ صبر کیا‘ انا للٰہ و انا الیہ راجعون پڑھا‘ دعائے مغفرت کی اور چلی آئیں۔۱؎ علمبردار اسلام سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے کفن کے لیے صرف ایک چادر تھی جو اس قدر چھوٹی تھی کہ سرچھپاتے تھے تو پائوں کھل جاتے تھے‘ پائوں چھپاتے تھے تو سر کھل جاتا تھا‘ آخر سر چھپایا اورپائوں کوگھاس ڈال کر چھپایا‘ ۲؎ تمام شہداء بلاغسل ایک ایک قبر میں دو دو دفن کئے گئے۔۳؎ میدان جنگ سے فارغ ہو کر مدینہ کی طرف چلے تو راستہ میں سیدنا مصعب بن عمیر