تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کے جلسوں اورمجمعوں میں خود جا جا کر ان کو نصیحتیں کیں اور کہا کہ تم خوب واقف ہو کہ میں اللہ تعالیٰ کا سچا رسول ہوں اورتم خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول کے ۱؎ سیرت ابن ہشام ص ۳۶۱ و ۳۶۲۔ آنے کا انتظار کر رہے تھے‘ تمہارا فرض تھا کہ سب سے پہلے میری تصدیق کرتے اور اپنی آسمانی کتاب میں لکھی ہوئی پیش گوئیوں کو تلاش کرتے‘ تم انکار و مخالفت میں ترقی کرتے جا رہے ہو‘ اللہ تعالیٰ کے غضب سے ڈرو‘ ایسا نہ ہو کہ تم پر بھی اسی طرح عذاب الہی نازل ہو جس طرح ابوجہل و عتبہ وغیرہ کا انجام ہوا کہ میدان بدر میں ذلیل و نامراد ہو کر مرے‘ یہودیوں نے بجائے اس کے کہ نصیحت حال کرتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو سخت و سست جواب دیے اورکہا کہ قریش مکہ تدبیرات جنگ ہی سے ناواقف تھے ہم سے جب مقابلہ کرو گے تو قدر عافیت معلوم ہو جائے گی‘ ہم کو قریش مکہ کی طرح نہ سمجھنا۔۱؎ یہودی قبیلہ بنی قینقاع غرض اس قسم کی ناملائم باتیں وہ علانیہ بکنے لگے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان تمام ناشدنی باتوں کو نہایت صبر و سکون کے ساتھ سنا اور ان نالائقوں کو جو گویا معاہدہ کو خود توڑ چکے تھے کوئی سزا دینی مناسب نہ سمجھی‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خواہش یہی تھی کہ وعظ و پند کے ذریعہ ان کو راہ راست پر لایا جائے‘ اور ان گستاخیوں پر کریمانہ عفو و درگذر سے کام لیا جائے‘ مگر یہودیوں کی شامت نے خود ان کے لیے سامان ہلاکت فراہم کر دئیے تھے۔ ایک روز بنی قینقاع کی بستی میں کوئی میلہ یا بازار لگا‘ اس بازار میں انصار کی ایک عورت دودھ بیچنے کے لیے گئی‘ دودھ بیچ کر وہ سنار کی دوکان پر کوئی زیور خریدنے یا بنوانے گئی‘ اس سنار یہودی نے اس عورت کو چھیڑا‘ ایک انصاری نے جو بازار میں گئے ہوئے تھے انصاری عورت کو مظلوم دیکھ کر اس کی حمایت کی‘ ادھر ادھر سے یہودی جمع ہو گئے اور انصاری پر حملہ کر دیا‘ اس فساد میں وہ انصاری شہید ہو گئے‘ ان کے ہاتھ سے بھی ایک یہودی مارا گیا‘ اس خبر کو سن کر دوسرے مسلمان جو وہاں اتفاقاً موجود تھے پہنچے‘ یہودیوں نے فوراً مسلح ہو کر حملہ کیا‘ یہ خبر مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو پہنچی‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو لے کر پہنچے‘ اور یہودیوں کو مسلح اور آمادہ قتال پایا‘ غرض مقابلہ ہوا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ بنی قینقاع‘ جن میں سات سو آدمی جنگ جو تھے ان میں تین سوز رہ پوش بھی تھے‘ اپنے قلعہ میں محصور ہو گئے‘ بنی قینقاع سیدنا عبداللہ بن سلام کی برادری تھی‘ مسلمانوں نے قلعہ کا محاصرہ کر لیا‘ پندرہ سولہ روز کے محاصرہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان قلعہ پر قابض و متصرف ہو گئے اور تمام بنی قینقاع کو گرفتار کر لیا۔ ۱؎ ہدایت دینا صرف اللہ وحدہٗ لا شریک لہ کا کام ہے۔ جو لوگ اپنے دل میں حق کی تڑپ رکھیں‘ اللہ رب العالمین کے قانون اور سنت کے مطابق ہدایت وہی پاتے ہیں اور جن کے دلوں میں پیاس حق اور قبول حق کا جذبہ ہی موجود نہ ہو‘ وہ بہرحال ہدایت و ایمان سے محروم رہتے ہیں۔ یہی معاملہ ان کا تھا۔ ملک عرب کا عام دستور تھا کہ اسیران جنگ بلا دریغ قتل کر دئیے جاتے تھے‘ اہل مکہ کو سب سے زیادہ تعجب اس بات کا ہوا تھا کہ اسیران بدر میںسے صرف وہ شخص جو حد سے زیادہ شرارت میں بڑھے ہوئے تھے قتل کئے گئے باقی سب کو چھوڑ دیا گیا‘ اب