تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اقرار نامہ کے مکمل اور دوسری متعلقہ باتوں کے طاطے ہونے میں چار دن صرف ہو گئے‘ ۱۳ ماہ صفر کو اقرار نامے حکمین کے سپرد کئے گئے‘ اور دونوں لشکر میدان صفین سے سفر کی تیاری کر کے کوفہ اور دمشق کی جانب روانہ ہوئے‘ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کوچ و مقام کرتے ہومے بخیرت دمشق پہنچ گئے‘ لیکن سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لیے اسی وقت سے ایک اور نئے فتنے کا دروازہ کھل گیا۔ فتنہ خوارج سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جب ۱۳ ماہ صفر ۳۷ ھ کو میدان صفین سے کوفہ کی طرف واپسی کا قصد کیا تو کچھ لوگ آپ کے پاس آئے اور کہا کہ آپ واپسی کا ارادہ فسخ کر دیں اور شامیوں پر حملہ آور ہوں‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا‘ کہ میں اقرار نامہ لکھنے کے بعد کیسے بد عہدی کر سکتا ہوں‘ اب ہم کو ماہ رمضان تک انتظار کرنا اور صلح کے بعد جنگ کا خیال بھی دل میں نہیں لانا چاہیے‘ یہ سن کر وہ لوگ آپ کے پاس سے چلے گئے‘ لیکن الگ ہو کر اپنے ہم خیال لوگوں کو ترغیب دی کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے جدا ہو کر اپنی راہ الگ اختیار کرنی چاہیے‘ چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ جب لشکر کوفہ لے کر روانہ ہوئے تو راستہ بھر لشکر علی رضی اللہ عنہ میں ایک ہنگامہ اور تو تو میں برپا تھی‘ کوئی کہتا تھا کہ پنچایت کا مقرر کرنا اچھا ہوا‘ کوئی کہتا تھا برا ہوا‘ کوئی کہتا تھا اس معاملہ میں پنچایت کا مقرر ہونا شرعاً جائز ہے‘ کوئی کہتا جائز نہیں ہے‘ کوئی جواب دیتا تھا کہ اللہ تعالیٰ تعالی نے زوجین کے معاملہ میں حکمین کے تقرر کا حکم دیا ہے‘ کوئی کہتا تھا کہ اس معاملہ کو زوجین کے معاملہ سے تشبیہ دینا غلطی ہے‘ یہ معاملہ ہم کو خود اپنی قوت بازو سے طے کرنا چاہیے تھا۔ کبھی کوئی اعتراض کرتا تھا کہ حکمین کا عادل ہونا ضروری ہے‘ اگر وہ عادل نہیں ہیں تو پھر ان کو حکم کیوں تسلیم کیا‘ پھر کوئی کہتا تھا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جنگ ملتوی کرنے اور اشتر کے واپس بلانے کا جو حکم دیا وہ ناجائز تھا‘ اس کو ہرگز نہیں ماننا چاہیے تھا‘ اس کے جواب میں دوسرا کہتا تھا کہ ہم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی ہے‘ ان کا ہر ایک حکم ماننا ہمارا فرض ہے‘ یہ سن کر فوراً تیسرا بول اٹھتا تھا کہ ہم ہرگز کوئی ان کا نامناسب حکم نہ مانیں گے‘ ہم مختار ہیں ‘ عقل و فہم رکھتے ہیں‘ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ہمارے لیے کافی ہے‘ اس کے سوا ہم اور کسی کی اطاعت کا جوا اپنی گردن پر نہیں رکھتے‘ یہ سن کر کچھ لوگ کہنے لگتے تھے کہ ہم ہر حالت میں علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہیں اور ان کی اطاعت کو فرض اور عین شریعت سمجھتے اور ان کی نافرمانی کو کفر جانتے ہیں‘ یہ باتیں بڑھتے بڑھتے یہاں تک نوبت پہنچی کہ ہر منزل پر آپس میں گالی گلوج اور مار پیٹ تک نوبت پہنچ جاتی تھی۔ لشکر کی اس ابتر حالت کو اصلاح پر لانے اور لوگوں کو سمجھانے کی سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہر چند کوشش فرماتے تھے‘ لیکن سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی کوششیں حسب منشاء نتائج پیدا نہ کر سکیں‘ وہ لشکر جو کوفہ سے صفین سے جاتے ہوئے بالکل متفق اور یک دل نظر آتا تھا اب صفین سے کوفہ کو واپس ہوتے ہوئے اس کی عجیب و غریب حالت تھی‘ تشتت و افتراق کا اس میں ایک طوفان موجزن تھا‘ اور اختلاف آراء نے اختلاف و عداوت کی شکل اختیار کر کے فوج کے ضبط و نظام کو بالکل درہم برہم کر دیا تھا‘ بیسوں گروہ تھے‘ جو بالکل الگ الگ خیالات و عقائد کا اظہار کر رہے تھے اور ایک دوسرے کو برا کہنے‘ طعن و تشنیع کرنے‘ چابک رسید کر دینے اور شمشیر و خنجر کی