تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سلم کی اطاعت کروں تم میری اطاعت کرو‘ جب میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی نافرمانی کروں تم میرا ساتھ چھوڑ دو‘ کیونکہ پھر تم پر میری اطاعت فرض نہیں ہے‘‘۔ اس روز ۳۳ ہزار صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ بیعت سقیفہ کے بعد مدینہ منورہ اور مہاجرین و انصار میں اس اختلاف کا نام و نشان بھی کہیں نہیں پایا گیا جو بیعت سے چند منٹ پیشتر مہاجرین و انصار میں موجود تھا‘ سب کے سب اسی طرح شیر و شکر اور ایک دوسرے کے بھائی بھائی تھے‘ یہ بھی ایک سب سے بڑی دلیل اس امر کی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جو براہ راست درس گاہ نبوی صلی اللہ علیہ و سلم سے مستفیض ہوئے تھے پورے طور پر دین کو دنیا پر مقدم کر چکے تھے اور دنیا میں کوئی گروہ اور کوئی جماعت ان کے مرتبہ کو نہیں پہنچ سکتی۔ جب اس بات پر غور کیا جاتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں سے ۳۳ ہزار صحابہ رضی اللہ عنھم نے ایک دن میں بطیب خاطر سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی اور پھر تمام ملک عرب اور سارے مسلمانوں نے آپ رضی اللہ عنہ کو خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تسلیم کرلیا تو خلافت صدیقی سے بڑھ کر کوئی دوسرا ۱؎ سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم ابن کثیر ج ۳ ص ۲‘۲۰۶۔ اجماع امت نظر نہیں آتا۔ لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات سے چند ماہ پیشتر یمن و نجد کے علاقوں میں اسود و مسیلمہ کے فتنے نمودار ہو چکے تھے‘ ان ملکوں کے باشندے نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے تھے‘ ابھی وہ پورے طور پر اسلام اور حقیقت اسلام سے واقف بھی نہ ہونے پائے تھے کہ جھوٹے مدعیان نبوت کے شیطانی فتنے نمودار ہوئے اور یہ نو مسلم لوگ ان کے فریب میں آ گئے‘ نجد کی طرف تو وہی کیفیت برپا تھی‘ لیکن وفات نبوی صلی اللہ علیہ و سلم سے پیشتر اسود عسنی کا کام ہو چکا تھا‘ مگر یمن کی طرف ابھی زہریلے اثر اور سامان فتن کا کلی استیصال نہیں ہوا تھا۔ وفات نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کی خبر تمام براعظم عرب میں نہایت سرعت اور برق رفتاری کے ساتھ پھیل گئی اور پھیلنی چاہیے تھی‘ اس خبر نے ایک طرف جدید الاسلام اور محتاج تعلیم قبیلوں کے خیالات میں تبدیلی پیدا کر دی‘ دوسری طرف جھوٹے مدعیان نبوت کے حوصلوں اور ہمتوں میں اضافہ کر کے ان کے کاروبار میں ترقی پیدا کر دی‘ ہر ملک اور ہر قوم میں واقعہ پسند اور فتنہ پرداز لوگ بھی ہر زمانہ میں ہوا ہی کرتے ہیں اس قسم کے لوگوں کو بھی از سر نو اپنی شرارتوں کے لیے مناسب مواقع میسر آئے‘ شہرت طلب افراد اور حکومت پسند قبائل بھی اپنی مطلق العنانی اور تن آسانیوں کے لیے تدابیر سوچنے لگے‘ نتیجہ یہ ہوا کہ ہر طرف سے ارتداد کی خبریں آنی شروع ہوئیں‘ یہ خبریں اس تسلسل اور اس کثرت سے مدینہ میں آئیں کہ ان کو سن سن کر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی آنکھوں کے سامنے مصائب و آلام اور ہموم و غموم کے پہاڑ تھے اور ان کے دل و دماغ پر اتنا بوجھ پڑ گیا تھا کہ انہوں نے اگر درس گاہ نبوی صلی اللہ علیہ و