تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
گورنر مقرر کر کے روانہ کیا‘ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے اس ملک میں آتے ہی رومی فوج کے مقابلے کی ایسی تیاریاں کیں اور اس طرح مقابلہ کیا کہ رومیوں کو سخت نقصان برداشت کرنے کے بعد اسکندریہ چھوڑ کر بھاگنا پڑا‘ اب کی مرتبہ عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے اسکندریہ کو تیسری مرتبہ فتح کیا تھا‘ اور اس مرتبہ اسکندریہ کے فتح کرنے سے پہلے قسم کھائی تھی کہ تمام شہر کو ویران و مسمار کر دوں گا‘ لیکن فتح کے بعد انہوں نے اپنے لشکر کو خوں ریزی اور قتل و غارت سے قطعاً روک دیا‘ جس جگہ لشکر کو قتل و غارت کی ممانعت کا حکم دیا تھا‘ اس جگہ ایک مسجد تعمیر کرا دی جس کا نام مسجد رحمت مشہور ہوا۔ جب سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ملک مصر پر پورے طور پر قابض و متصرف ہو گئے اور تمام انتظامات ملکی بھی مکمل ہو گئے‘ تو سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ خلیفہ وقت نے سیدنا عمروبن العاص کو مصر کی حکومت سے معزول کر کے ان کی جگہ سیدنا عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ کو پھر مصر کا گورنر مقرر کر دیا‘ اس مرتبہ سیدنا عمرو کو اپنے معزول ہونے کا صدمہ ہوا‘ ادھر عبداللہ کو بھی اپنے مامور مقرر ہونے کا رنج ہوا‘کیونکہ وہ مصر کی بگڑی ہوئی حالت کو خود نہ سنبھال سکے تھے اس کو عمرو بن العاص نے سدھارا اور اس کے بعد پھر ملک کی حکومت ان کو دے دی گئی‘ اب عبداللہ بن سعد کو یہ فکر ہوئی کہ کسی طرح اپنی گذشتہ بدنامی کی تلافی کروں۔ فتح افریقہ سیدنا عبداللہ بن سعد نے سیدنا عثمان غنی سے اجازت طلب کی کہ شمالی افریقہ پر چڑھائی ہونی چاہیے‘ اس زمانہ میں افریقہ ایک براعظم کا نام ہے مگر اس زمانہ میں افریقہ نام کی ایک ریاست بھی تھی جو طرابلس اور طنجہ کے درمیانی علاقہ پر پھیلی ہوئی تھی‘ لیکن اس زمانہ میں افریقہ ان ملکوں کے مجموعہ پر بھی بولا جاتا تھا جو آج کل براعظم افریقہ کے شمالی حصہ میں واقع ہیں‘ یعنی طرابلس‘الجیریا ٹیونس مراکو وغیرہ۔ سیدنا عثمان غنی نے عبداللہ بن سعد کو فوج کشی کی اجازت دی‘ انہوں نے دس ہزار فوج کے ساتھ مصر سے خروج کر کے علاقہ برقہ میں سرحدی رئیسوں کو مغلوب کیا‘ ان رئیسوں کو اپنے زمانہ حکومت میں عمروبن العاص رضی اللہ عنہ بھی چڑھائی کر کے جزیہ کی ادائیگی پر مجبور کر چکے تھے اور بعد میں موقع پا کر وہ خود مختار ہو گئے تھے‘ اس لیے اب انہوں نے جزیہ کے ادا کرنے اور اپنے آپ کو محکوم تسلیم کرنے میں زیادہ چون و چرا نہیں کی۔ اس کے بعد جب عبداللہ بن سعد ملک کے درمیانی حصے اور طرابلس کی طرف بڑھنے لگے تو سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ سے ایک فوج مرتب کر کے ان کی مدد کے لیے روانہ کی‘ اس فوج میں سیدنا عبداللہ بن عمر‘ سیدنا عبداللہ بن عباس‘ سیدنا عبداللہ بن زبیر‘ سیدنا عمرو بن العاص سیدنا حسن بن علی‘ سیدنا حسین بن علی‘ سیدنا ابن جعفر وغیرہ رضی اللہ عنہم حضرات شامل تھے‘ یہ فوج مصر ہوتی ہوئی برقہ میں پہنچی تو وہاں عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ نے استقبال کر کے اس سے ملاقات کی‘ اب سب مل کر طرابلس کی طرف بڑھے‘ رومیوں نے طرابلس سے نکل کر مقابلہ کیا مگر شکست کھا کر بھاگے‘ مسلمانوں کا طرابلس پر قبضہ ہو گیا۔ طرابلس پر قبضہ مکمل کر کے خاص ریاست افریقہ کی طرف لشکر اسلام بڑھا‘ افریقہ کا بادشاہ جرجیر نامی قیصر کا ماتحت اور خراج گذرا تھا‘ اس کو جب اسلامی لشکر کے اپنی