تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اطلاع دے دوں کہ تم پر حملہ ہونے والا ہے تاکہ اہل مکہ ممنون ہو کر میرے عزیز و اقرباء کو ضرر نہ پہنچائیں‘ یہ سن کر سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے برافروختہ ہو کر کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! حکم دیجئے کہ اس منافق کی گردن اڑادوں‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اے عمر رضی اللہ عنہ ! حاطب رضی اللہ عنہ کی غلطی ہے جو قابل عفو ہے‘ چنانچہ سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کی یہ حرکت بے جا معاف فرما دی گئی۔۱؎ مکہ کی طرف روانگی ۱۱ رمضان المبارک ۸ ھ کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم دس ہزار صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہوئے‘ قریش ابوسفیان کے ناکام واپس آنے سے پہلے بہت پریشان تھے‘ ان کو مسلمانوں کے ارادہ کی کوئی اطلاع نہ تھی‘ نہ ان کے جاسوسوں اور حلیف قبائل نے ان کو کوئی اطلاع دی تھی‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مدینے سے روانہ ہو کر نہایت تیز رفتاری سے مکہ کی طرف چلے جاتے تھے‘ مقام جحفہ میں پہنچے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم چچا سیدنا عباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ مع اہل و عیال مسلمان اور مہاجر ہو کر مدینے کی طرف آتے ہوئے ملے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے اہل و عیال کو تو مدینے کی طرف بھیجوا دیا اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کو اپنے ہمراہ لیا۔ اسلامی لشکر بڑھتا ہوا مکہ کے قریب وادی مرالظہران میں (جو مکہ سے چارکوس کے فاصلہ پر ہے پہنچ گیا‘ ابھی تک مکہ والے بے خبر تھے‘ ان کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ مسلمان اس عہد شکنی کی ہم کو کیا سزا دیں گے اور کیا طرز عمل اختیار کریں گے‘ مرالظہران میں شام کے وقت لشکر اسلام پہنچ کر کر خیمہ زن ہوا‘ رات ہونے پر چرواہوں کے ذریعہ مکہ میں خبر پہنچی کہ وادی مرالظہران میں ایک لشکر عظیم خیمہ زن ہے‘ یہ خبر سن کر ابوسفیان تفتیش کی غرض سے نکلا‘ بدیل بن ورقا اور حکیم بن حزام بھی اس کے ہمراہ تھے‘ ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کو ایک دستہ فوج دے کر طلایہ گردی پر مامور فرما دیا تھا کہ دشمن شبخون نہ مار سکے‘ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کا دل اپنی قوم کے لیے بے چین تھا‘ وہ جانتے تھے کہ صبح جب اسلامی لشکر مکہ پر حملہ آور ہو گا تو قریش اور مکہ کا نشان باقی نہ رہے گا‘ وہ چاہتے تھے کہ کسی طرح اہل مکہ مسلمان ہو جائیں‘ چنانچہ وہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے خچر دلدل نامی پر سوار ہو کر لشکر گاہ سے نکلے اور مکہ کی جانب چلے‘ اسلامی لشکر گاہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم کے موافق ہزار ہزار کے دستوں ۱؎ صحیحبخاریکتابالمغازیحدیث۴۲۷۳۔صحیحمسلمکتابالفضائلبابفضائلاہلبدر۔ نے الگ الگ پڑائو ڈالے تھے اور سب نے آگ روشن کر رکھی تھی۔ ابوسفیان نے جب دور سے آگ روشن دیکھی تو وہ حیران رہ گیا کہ اتنا بڑا لشکر کہاں سے آ گیا‘ بدیل بن ورقاء خزاعی نے کہا کہ یہ خزاعہ کا لشکر ہے‘ ابوسفیان نے سن کر حقارت آمیز لہجہ میں جواب دیا کہ خزاعہ کی کیا مجال ہے کہ اتنا بڑا لشکر لا سکے‘ وہ