تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مال ‘ گرجے‘ صلیب‘ بیمار‘ تندرست سب کو امان دی جاتی ہے اور ہر مذہب والے کو امان دی جاتی ہے‘ ان کے گرجائوں میں سکونت نہ کی جائے گی اور نہ وہ ڈھائے جائیں گے یہاں تک کہ ان کے احاطوں کو بھی نقصان نہ پہنچایا جائے گا‘ نہ ان کی صلیبوں اور مالوں میں کسی قسم کی کمی کی جائے گی‘ نہ مذہب کے بارے میں کسی قسم کا کوئی تشدد کیا جائے گا اور نہ ان میں سے کسی کو کوئی ضرر پہنچائے گا‘ اور ایلیا میں ان کے ساتھ یہودی نہ رہنے پائیں گے‘ اور ایلیا والوں کا فرض ہے کہ وہ جزیہ دیں‘ اور یونانیوں کو نکال دیں‘ پس یونانیوں یعنی رومیوں میں سے جو شہر سے نکل جائے گا اس کے جان و مال کو امان دی جاتی ہے جب تک وہ محفوظ مقام تک نہ پہنچ جائیں‘ اور اگر کوئی رومی ایلیا ہی میں رہنا پسند کرتا ہے تو اس کو باقی اہل شہر کی طرح جزیہ ادا کرنا ہو گا‘ اور اگر اہل ایلیا میں سے کوئی شخص رومیوں کے ساتھ جانا چاہے تو اس کو امن و امان ہے یہاں تک کہ وہ محفوظ مقام پر پہنچ جائیں‘ جو کچھ اس عہد نامہ میں درج ہے اس پر خدا‘ رسول اور خلفاء اور تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے بشرطیکہ اہل ایلیاء مقررہ جزیہ کی ادائیگی سے انکار نہ کریں‘‘۔ اس عہد نامہ پر سیدنا خالد بن ولید‘ عمروبن العاص‘ عبدالرحمن بن عوف اور معاویہ بن ابی سفیان کے دستخط بطور گواہ ثبت ہوئے‘ بیت المقدس والوں نے فوراً جزیہ ادا کر کے شہر کے دروازے کھول دئیے‘ اسی طرح اہل رملہ نے بھی مصالحت کے ساتھ شہر مسلمانوں کے سپرد کر دیا‘ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ پیادہ پابیت المقدس میں داخل ہوئے‘ سب سے پہلے مسجد اقصیٰ میں گئے اور محراب دائود کے پاس پہنچ کر سجدہ دائود کی آیت پڑھ کر سجدہ کیا‘ پھر عیسائیوں کے گرجے میں گئے اور اس کی سیر کر کے واپس تشریف لائے‘ بیت المقدس کی فتح کے بعد فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے صوبہ فلسطین کے دو حصے کر دئیے‘ ایک حصہ پر علقمہ بن حکیم کو عامل مقرر کر کے رملہ میں قیام کا حکم دیا‘ دوسرے حصہ پر علقمہ بن محزر کو عامل مقرر فرما کر بیت المقدس میں رہنے کا حکم دیا۔ فتح تکریت و جزیرہ مذکورہ بالا واقعات کے پڑھنے سے رجب ۱۶ ھ تک کی اسلامی تاریخ جو شام و عراق سے تعلق رکھتی ہے ہماری نظر سے گذر گئی‘ اب آگے روم و ایران کے واقعات میں سے کسی ایک کے سلسلہ کو شروع کرنے سے پیشتر تکریت کی فتح اور صوبہ جزیرہ پر لشکر اسلام کے قبضہ کا حال اس لیے بیان کرنا ضروری ہے کہ تکریت میں رومیوں اور ایرانیوں نے مل کر مسلمانوں کا مقابلہ کیا تھا‘ اسی طرح جزیرہ کے قبضہ میں لانے کا باعث مسلمانوں کی عراقی و شامی دونوں فوجیں ہوئی ہیں‘ نیز یہ کہ مذکورہ بالا واقعات کے بعد ہی تکریت والجزیرہ کے واقعات وقوع پذیر ہوئے ہیں۔ تکریت میں ایک ایرانی صوبہ دار رہا کرتا تھا‘ اس نے جب سنا کہ مدائن پر مسلمانوں کا قبضہ ہو چکا ہے تو اس نے رومیوں کو اپنی طرف متوجہ کیا‘ رومی لوگوں پر بھی چوں کہ اسلامی فوجوں کی ضربیں پڑ رہی تھیں وہ بہت آسانی سے اس سرحدی صوبہ دار کی اعانت پر آمادہ ہو گئے ساتھ ہی ایاد‘ تغلب‘ نمر وغیرہ عرب قبائل جو عیسائی تھے رومیوں کی ترغیب سے مرزبان تکریت کے ساتھ شریک ہو گئے۔ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی ہدایت کے مطابق سیدنا سعد رضی اللہ عنہ بن ابی وقاص نے عبداللہ بن معتم کو پانچ ہزار کی جمعیت کے ساتھ تکریت کی جانب روانہ کیا‘ اسلامی