تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو کوئی ناپسندیدہ بات معلوم ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کسی کا نام لے کر تخصیص کے ساتھ کچھ نہ فرماتے‘ بلکہ یوں فرماتے کہ وہ کیسے آدمی ہیں جو ایسی باتیں کرتے ہیں‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم پیشتر اوقات خاموش رہتے تھے اور بلا ضرورت بات نہیں کرتے تھے۔۳؎ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا کلام صاف اور واضح ہوتا تھا‘ نہ اتنا طویل کہ اس میں کوئی فضول اور غیر ضروری بات ہو‘ نہ اتنا مختصر کہ کوئی کام کی بات رہ جائے یا سمجھ میں نہ آئے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی چال بھی نہایت معتدل تھی‘ نہ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم سست چلتے تھے کہ ساتھ والوں پر گراں ہو‘ نہ اس قدر تیز چلتے تھے کہ اس سے تکان اور سستی مترشح ہو‘ غرض اعتدال اور میانہ روی آپ کی ہر ایک بات سے ہویدا تھی۔ خوش طبعی آپ کبھی خوش طبعی بھی فرما لیتے تھے‘ مثلاً ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی کو ایک اونٹ دینے کا ۱؎ صحیحبخاریکتابالأدبحدیث۶۱۰۲۔صحیحمسلمکتابالفضائلبابکثرۃحیائہ صلی اللہ علیہ و سلم ۔ ۲؎ متفقعلیہبحوالہمشکوٰۃالمصابیحکتابالفضائلحدیث۵۸۱۸۔ ۳؎ شرحالسنہبحوالہمشکوٰۃالمصابیحکتابالفضائلحدیث۵۸۲۶۔ وعدہ کیا‘ جب وہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ میں تجھے اونٹنی کا بچہ دیتا ہوں‘ یہ سن کر وہ شخص کہنے لگا میں اونٹنی کا بچہ کیا کروں گا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اونٹ اونٹنی کے بچے نہیں ہوتے تو اور کس کے بچے ہوتے ہیں؟۱؎ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خوش طبعی کی راہ سے بجائے اونٹ کے اونٹنی کا بچہ کہا تھا‘ وہ سمجھا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے چھوٹے سے کم عمر بچہ کے لیے حکم دیا ہے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم خوش طبعی فرماتے تھے لیکن خوش طبعی میں بھی کبھی صدق اور راستی کے سوا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان سے کوئی کلمہ غلط یا جھوٹ نہیں نکلتا تھا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں کو کھیلنے کودنے اور خوشی منانے سے بھی منع نہیں فرماتے تھے۔ اخلاق حمیدہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم جب بیٹھتے تو لوگوں کے اندر اس طرح گھل مل جاتے ہوتے کہ کوئی نووارد آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو پہچان نہ سکتا تھا‘ اور پوچھنے کی ضرورت پیش آتی تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کون ہیں‘ ایسی چیز جس کے کھانے منہ بدبودار ہو جائے آپ صلی اللہ علیہ و سلم پسند نہ فرماتے تھے‘ پیوند لگا ہوا کپڑا پہن لیتے‘ اور اچھا کپڑا مل جائے تو اسے پھینک نہ دیتے تھے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا لباس سادہ مگر صاف ہوتا تھا‘ دن میں کئی کئی مرتبہ مسواک کرتے تھے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بیٹھنے والے یہ شہادت دیتے ہیں کہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے جسم یا لباس یا منہ سے بو نہیں آئی۔ جہاں عفو سے اصلاح ہوتی وہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم عفو کرتے ‘ مگر جہاں سزا کی ضرورت ہوتی وہاں سزا بھی دیتے‘ کیونکہ ان شریروں کو جو شرارت سے باز نہ آتے