تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حکومت کا مزا اڑائیں‘ جائو ہم کو تمہاری ضرورت نہیں۔۲؎ سوید بن صامت نبوت کا گیارہواں سال شروع ہو چکا تھا‘ مدینہ کا رہنے والا قبیلہ اوس کا ایک شخص سوید بن صامت مکہ میں آیا جو اپنی قوم میں کامل کے لقب سے مشہور تھا‘ اس کی ملاقات اتفاقاً سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو اسلام کی دعوت دی‘ اس نے کہا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بھی وہی ہے جو میرے پاس ہے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تیرے پاس کیا ہے‘ اس نے کہا حکمت لقمان‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سنائو‘ اس نے کچھ اشعار پڑھے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سن کر فرمایا کہ یہ اچھا کلام ہے لیکن میرے پاس قرآن مجید ہے‘ جو اس سے بہتر و افضل ہے‘ اور ہدایت و نور ہے‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے قرآن مجید اس کو سنایا‘ اس نے قرآن مجید سن کر اقرار کیا کہ واقعی یہ ہدایت اور نور ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ وہ مسلمان ہو گیا بعض میں ہے کہ وہ مسلمان نہیں ہوا‘ مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم ۱؎ صحیح یہ ہے کہ سودہ سے ۱۰ نبوت میں اور عائشہ ۷ نبوت میں نکاح کیا۔ ۱؎ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بنو حنیفہ‘ بنو نصر‘ بنو البکاء اور بنو حضارمہ کو بھی دعوت اسلام دی تھی۔ لیکن ان تمام قبائل نے دعوت اسلام کو ٹھکرا دیا۔ جامع ترمذی بہ حوالہ الرحیق المختوم‘ ص ۱۸۷۔ ۲؎ اس کے بعد قبیلہ بنو عامر کے ایک بوڑھے اور جہاں دیدہ آدمی کو جب بنو عامر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت اسلام اور بنو عامر کے انکار کا پتہ چلا تو وہ بوڑھا شخص اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور بولا : ’’اے بنو عامر! کیا اب اس کی تلافی ہو سکتی ہے؟ اور کیا اس شخص کو تلاش کیا جا سکتا ہے؟ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں فلاں کی جان ہے‘ کسی اسماعیلی (یعنی اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے کسی شخص) نے کبھی نبوت کا جھوٹا دعویٰ نہیں کیا۔ یقینا (وہ) حق ہے۔ آخر تمہاری عقل کہاں چلی گئی تھی؟‘‘ (سیرت ابن ہشام‘ ص ۲۰۹) کی مخالفت بالکل نہیں کی‘ مدینہ میں جا کر وہ ایک لڑائی میں جو اوس و خزرج کے درمیان ہوئی مارا گیا۔۱؎ ایاس بن معاذ رضی اللہ عنہ انہیں ایام میں انس بن رافع اپنی قوم بنو عبدالاشہل کے چند لوگوں کو ہمراہ لے کر مدینہ سے مکہ میں اس لئے آیا کہ قریش مکہ سے قوم خزرج کے مقابلہ میں معاہدہ کرے اور قریش کو اپنی قوم کا ہم عہد بنائے‘ اس وفد کے آنے کی خبر سن کی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلم سب سے پہلے ان کے پاس پہنچ گئے‘ ابھی وہ سردارن قریش سے ملنے اور اپنا مقصد بیان کرنے نہ پائے تھے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جاتے ہی ان سے کہا کہ میرے پاس ایسی چیز ہے جس میں تم سب کی بہتری مضمر ہے‘ اگر تم چاہو تو میں پیش کروں‘ انہوں نے کہا بہت اچھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم پیش کریں‘ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میں لوگوں کی ہدایت و رہبری کے لئے رسول مبعوث ہوا ہوں شرک سے منع کرتا‘ اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کا حکم دیتا ہوں‘ مجھ پر اللہ تعالی نے کتاب نازل کی ہے‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسلام کے اصول بتائے اور قرآن مجید پڑھ کر سنایا۔ مدینہ کے اس وفد میں انس بن رافع کے ہمراہ ایک نوجوان ایاس بن معاذ بھی تھا‘ ایاس نے