تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
دیکھو جو اس آخری زمانہ میں سلاطین مغلیہ کی ان کے درباروں میں اور اطراف ملک میں کی جاتی تھی‘ مگر نہ صرف پنجاب‘ سندھ‘ دکن‘ بنگال وغیرہ صوبوں میں بلکہ آگرہ والہ آباد اوردلی کے صوبوں میں بھی شاہی احکام کی تعمیل نہ ہوتی تھی۔ شخصی جمہوری سلطنت اسلام نے دنیا میں جس قسم کی حکومت کرنی چاہی ہے اور جو نمونہ صدر اسلام میں پیش کیا ہے اس کو شخصی جمہوری سلطنت کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔۱؎ ا سلام کا مجوزہ نظام حکومت خالص جمہوری اور خالص شخصی سلطنتوں کی درمیانی حالت سمجھنا چاہیئے‘ خلیفہ یا شہنشاہ یا حکمران کے انتخاب میں ہر اسلامی طبقہ کو اظہار رائے کا موقع حاصل ہوتا ہے۔ مستحق حکومت و خلافت اور مسلمانوں کے بہترین شخص کے انتخاب میں تمام وہ صورتیں اختیار کر لینی جائز ہیں اور بہترین شخص کا تعین ہو جائے‘ کسی اساسی قانون یا دستور العمل یا جدید نظام حکومت کے بنانے کی مسلمانوں کو ضرورت ہی نہیں‘ کیونکہ قرآن مجید سنت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم ان کے پاس موجود ہے۔ پس بہترین شخصیت کے انتخاب کر لینے کا کام بھی مسلمانوں کے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہے‘ جو شخص قرآن و حدیث سے زیادہ واقف اور اس کی زندگی قرآن و سنت کے سانچہ میں زیادہ ڈھلی ہوئی نظر آتی ہو وہ اس امر کا زیادہ مستحق ہے کہ مسلمانوں کا حاکم بنایا جائے… قرآن و حدیث کی تعلیمات کے موافق ملک و قوم کو چلانا اور احکام اللہ و رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو نافذ کرنا مسلمانوں کے حاکم کا خالص کام ہے‘ مسلمان اپنے حکمراں کو اگر وہ اللہ و رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم کی ۱؎ شخصی جمہوری سلطنت نہیں بلکہ خلافت اسلامیہ کی اصطلاح درست ہے۔ مخالفت میں کوئی حرکت کرے فوراً ٹوک اور روک سکتے ہیں‘ لیکن اس کے ہر ایک حکم کی تعمیل کو‘ جو قرآن و سنت و حدیث کے خلاف نہ ہو‘ ہر ایک مسلمان کا فرض ہے کہ ضروری سمجھے‘ اور اس سے بغاوت و سرکشی کا خیال تک بھی دل میں نہ آنے دے۔۱؎ مسلمانوں کا حکمران اگر بے راہ روی اور اللہ و رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے صاف احکام کی خلاف ورزی اختیار کرے تو فوراً معزول کیا جا سکتا ہے‘لیکن اگر وہ اپنے فرائض اور ملک و قوم کی خدمات اللہ کے ڈر اور نیک نیتی کے ساتھ بجا لاتا ہے تو اس سے بڑھ کر اور کیا حماقت ہو سکتی ہے کہ ایک تجربہ کار‘ مفید ملک و قوم‘ نیک طینت اور قیمتی شخص کو محض اس لیے برطرف کیا جائے اور نئے شخص کے انتخاب کی زحمت گوارا کی جائے کہ اس پہلے خلیفہ یا حکمران کو تین یا پانچ سال کی مدت گزر چکی ہے۔۲؎ مسلمانوں کا خلیفہ درحقیقت مسلمانوں کا خادم یا مسلمانوں کا چوکیدار‘ پاسبان یا امین ہوتا ہے‘ پس کسی خادم یا پاسبان یا امین کو اگر وہ اپنے فرائض عمدگی سے بجا لاتا ہے‘ ہم کیوں اس کے فرائض سے ہٹائیں اور کسی نئے تجربہ کی مصیبت میںاپنے آپ کو مبتلا کریں‘ مسلمان اپنے خلیفہ سے کوئی قانون بنوانا نہیں چاہتے‘ مسلمان اپنے خلیفہ کو اپنے روپے سے عیش پرستی و تن پروری کا موقع ہی نہیں دینا چاہتے‘ مسلمانوں کا خلیفہ ایک نہایت معتدل اور معقول نظام کے ماتحت امیروں سے بقدر مناسب مال و دولت وصول کرتا اور اس کو غریبوں‘ مفلسوں‘ یتیموں وغیرہ حاجت مندوں کے لیے خرچ کرتا ہے‘