تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مسلمانوں کو مکہ میں کوئی خطرہ نہیں رہا اس خبر کو سن کر بعض مسلمان حبش سے مکہ کو واپس ہوئے اور بعض نے اس افواہ کی تصدیق اور قابل قبول ذریعہ سے خبر کے پہنچنے کا انتظار ضروری سمجھا‘ جو لوگ مکہ کو واپس آ گئے تھے انہوں نے مکہ کے قریب پہنچ کر سنا کہ وہ افواہ غلط تھی لہذا ان میں سے بعض تو راستے ہی سے واپس حبش کی جانب چلے گئے اور بعض کسی بااثر اور طاقت ور قریشی کی ضمانت حاصل کر کے مکہ میں واپس آ گئے۔ یہ لوگ مکہ میں آ کر اور مسلمانوں کو بھی اپنے ہمراہ لے کر پھر حبش کی طرف روانہ ہو گئے‘ یہ حبش کی دوسری ہجرت کہلاتی ہے‘ اب ملک حبش میں مسلمانوں کی تعداد ایک سو کے قریب پہنچ گئی۔۱؎ شاہ حبش سے قریش کا مطالبہ کفار مکہ نے جب دیکھا کہ مکہ کے آدمی مسلمان ہو ہو کر حبش کی طرف چلے جاتے ہیں اور وہاں آرام سے زندگی بسر کرتے ہیں تو ان کو خطرہ پیدا ہوا کہ اس طرح تو ممکن ہے کہ ہماری بڑی طاقت بتدریج اسلام میں تبدیل ہو کر باہر کسی مرکز میں جمع ہو اور ہم پر کوئی آفت باہر سے نازل ہو‘ لہذا انہوں نے مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اوران کے ساتھیوں پر مظالم کو اور زیادہ کر دیا‘ اور عمرو بن العاص و عبداللہ بن ربیعہ دو معزز شخصوں کو سفیر بنا کر نجاشی شاہ حبش کے دربار میں بھیجا‘ قریش مکہ اور نجاشی شاہ حبش کے درمیان پہلے سے ایک تجارتی معاہدہ تھا اور اسی کے موافق قریش مکہ کی ملک حبش کے ساتھ تجارت قائم تھی‘ ان دونوں سفیروں کو شاہ حبش کے لیے نہایت گراں بہا تحفے اور ہدایا سپرد کئے گئے۔ نہ صرف شاہ حبش بلکہ اس کے درباریوں کے لیے بھی قیمتی تحفے دئیے گئے۔ قریش مکہ کے اس وفد نے دربار حبش میں حاضر ہو کہ یہ ہدایا پیش کئے‘ شاہ حبش کے دربار یوں ۱؎ سیرت ابن ہشام‘ صفحہ ۱۵۵ تا ۱۶۱ … ہجرت کرنے والے مسلمان جن کی تعداد اوپر بیان ہوئی ہے‘ بیاسی یا تراسی مردوں اور اٹھارہ عورتوں پر مشتمل تھی۔ کو اپنی طرف مائل و متوجہ کیا۔۔۔۔۔ اور پھر یہ مطالبہ پیش کیا کہ ہمارے کچھ غلام باغی ہو کر آپ کے ملک میں آ گئے اور اپنا آبائی دین چھوڑ کر ایک نئے دین کے تابع ہو گئے ہیں جو سب سے نرالا ہے‘ لہذا ان غلاموں کو ہمارے حوالے کیا جائے‘ بادشاہ نے اس درخواست کو سن کر کہا کہ میں پہلے تحقیق کر لوں پھر تمہاری درخواست پر غور کیا جائے گا‘ درباریوں نے بھی قریش کے ان سفیروں کی تائیدو حمایت کی‘ مگر نجاشی نے مہاجر مسلمانوں کو اپنے دربار میں بلوایا اور کہا کہ وہ کون سا مذہب ہے جو تم نے اختیار کیا ہے؟ مسلمانوں کی طرف سے سیدنا جعفر بن ابوطالب رضی اللہ عنہ نے سب سے آگے بڑھ کر نجاشی کی خدمت میں اس طرح اپنی تقریر شروع کی:۔ جعفر بن رضی اللہ عنہ ابوطالب کی تقریر دل پذیر! ’’اے بادشاہ! ہم لوگ جاہل تھے‘ بت پرست تھے‘ مردہ خوار تھے‘ بدکار تھے‘ قطع رحمی اور پڑوسیوں سے بدمعاملگی کرتے تھے‘ ہم میں جو طاقت ور ہوتا تھا وہ کمزور کا حق دبا لیتا تھا‘ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ہم میں ایک رسول صلی اللہ علیہ و سلم بھیجا جس کے حسب و نسب اور صدق و امانت سے ہم سب واقف تھے اس نے ہم کو مؤحد بنا کر بت پرستی سے روکا‘ راست گفتاری ‘ امانت اور صلہ رحمی کا حکم دیا‘ ہمسایوں کے ساتھ