تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
رضی اللہ عنھا بھی تھیں‘ ان کو ان کے بھائی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بصرہ کی طرف جانے سے منع کیا اور وہ رک گئیں‘ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بھی مکہ پہنچ گئے تھے‘ وہ بھی اس لشکر کے ہمراہ ہو لیے۔ ام المومنین رضی اللہ عنہ کی مکہ سے بصرہ کی جانب روانگی عبداللہ بن عامر اور یعلی بن منبہ بصرہ اور یمن سے کافی روپیہ اور سامان لے کر مکہ میں پہنچے تھے‘ لہذا ان ہی دونوں نے لشکر ام المومنین رضی اللہ عنہ کی سامان سفر کی تیاری و فراہمی میں حصہ لیا‘ ان دونوں نے روانگی سے پہلے تمام مکہ میں منادی کرا دی تھی کہ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ بصرہ کی طرف جا رہے ہیں‘ جو شخص اسلام کا ہمدرد اور خون عثمان رضی اللہ عنہ کا بدلہ لینا چاہتا ہو وہ آئے اور شریک لشکر ہو جائے‘ اس کو سواری وغیرہ دی جائے گی۔ غرض اس طرح مکہ معظمہ سے ڈیڑھ ہزار آدمیوں کا لشکر روانہ ہوا‘ عین روانگی کے وقت مروان بن الحکم اور سعید بن العاص بھی مکہ میں پہنچے اور شریک لشکر ہوئے‘ مکہ سے تھوڑی ہی دور چلے تھے‘ کہ اطراف و جوانب سے جوق در جوق لوگ آ آ کر شریک ہونا شروع ہوئے اور بہت جلد اس لشکر کی تعداد تین ہزار ہو گئی۔ ام فضل بنت الحرث مادر عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ بھی اتفاقاً شریک لشکر تھیں‘ انہوں نے قبیلہ جہنیہ کے ایک شخص ظفر نامی کو اجرت دے کر سیدنا علی کی جانب روانہ کیا‘ اور ایک خط دیا‘ جس میں اس لشکر اور اس کی روانگی کے تمام حالات لکھ کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو آگاہ کیا گیا تھا‘ باقی امہات المومنین جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کے ہمراہ آئی تھیں‘ مقام ذات عرق تک تو ہمراہ آئیں‘ پھر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے رو رو کر رخصت ہوئیں اور مدینہ کی طرف روانہ ہوئیں۔ بعض اختلافات کی وجہ سے راستہ ہی سے سعید بن العاص اور مغیرہ بن شعبہ اور کچھ اور لوگ واپس ہو گئے۔ امیر بصرہ کی مخالفت یہ لشکر جب بصرہ کے قریب پہنچا‘ تو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ نے اول عبداللہ ابن عامر کو اہل بصرہ کی طرف بھیجا‘ اور بصرہ کے عمائدین کے نام خطوط بھی روانہ کئے‘ اور خود جواب کے انتظار میں ٹھہر گئیں‘ بصرہ کے موجودہ گورنر عثمان بن حنیف کو جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کی تشریف آوری کا حال معلوم ہوا تو اس نے بصرہ کے چند با اثر لوگوں کو بلا کر بطور ایلچی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کے لشکر کی جانب بھیجا‘ ان لوگوں نے سیدنا ام المومنین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر تشریف لانے کا سبب دریافت کیا‘ تو انہوں نے جواب دیا کہ عام بلوائیوں اور قبائل کے فتنہ پرداز لوگوں نے یہ ہنگامہ برپا کیا ہے‘ اور مسلمانوں کی جمعیت کو نقصان پہنچا کر اسلام کو نقصان پہنچانا چاہا ہے‘ میں مسلمانوں کی یہ جماعت لے کر اس لیے نکلی ہوں کہ ان کو اصلی واقعات سے مطلع کروں اور ان کی اصلاح کروں‘ اس خروج سے میرا مقصد اصلاح بین المسلمین کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ وہاں سے اٹھ کر یہ لوگ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں آئے‘ اور آنے کا سبب دریافت کیا‘ انہوں نے جواب دیا کہ ہم عثمان رضی اللہ عنہ کا بدلہ لینے کے لیے نکلے ہیں‘ پھر ان بصرہ والوں نے دریافت کیا کہ کیا تم دونوں