تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جمع اور مرتب ہوا تھا‘ اور اول سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے پاس‘ پھر ان کے بعد فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے زیر تلاوت رہا‘ اور فاروق اعظم کی شہادت کے بعد سیدنا حفصہ کے پاس تھا‘ اس قرآن مجید کی نقل اور کتابت پر عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے کئی معقول و موزوں حضرات کو مامور کیا‘ جب بہت سی نقلیں تیار ہو گئیں تو ایک ایک نسخہ بڑے بڑے شہروں میں بھیج کر ساتھ ہی حکم بھیجا کہ سب اسی کے موافق قرآن مجید نقل کرائیں‘ اور پہلی جو نقل جس کسی کے پاس ہو وہ جلا دی جائے‘ کوفہ میں جب قرآن مجید پہنچا تو صحابہ کرام بہت خوش ہوئے‘ لیکن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنی ہی قرات پر اصرار کیا۔ ۳۱ ھ کے واقعات دربار خلافت سے جو احکام جاری ہوئے ان کے موافق ہرم بن حسان یشکری‘ ھرم بن حیان العندی ‘ حرث بن راشد بلاد فارس کے اضلاع میں‘ احنف بن قیس خراسان میں اور حبیب بن قرہ مرو میں خالد بن عبداللہ بلخ میں ‘ قیس بن ہبیرہ طوس میں عامل مقرر ہوئے‘ خراسان کے کئی شہروں میں بغاوت نمودار ہوئی‘ عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے فوج کشی کر کے تمام بغاوتوں کو فرو کیا پھر نیشاپور پر چڑھائی کر کے وہاں کے سرکشوں کو درست کیا‘ نیشا پور سے فارغ ہو کر سیدنا عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے ایک لشکر سرخس کی طرف روانہ کیا اور ایک جمعیت لے کر خود ہرات کی جانب گئے‘ ہرات کو فتح کر کے بلخ و طبرستان کی بغاوتوں کو فرو کیا‘ اس کے بعد کرمان سبحستان اور فارس کے صوبوں میں جا کر وہاں کے تمام سرکشوں کو مطیع و منقاد کیا‘ اس طرح تمام بلاد ایران و عراق میں عبداللہ بن عامر کی دھاک بیٹھ گئی اور لوگ ان کے نام سے خوف کھانے لگے۔ یزد جرد کی ہلاکت ایرانی سلطنت تو فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ہی کے عہد خلافت میں برباد ہو چکی تھی‘ سلطنت کے بعض سرحدی صوبے یا بعض شہر جو باقی تھے وہ خلافت عثمانی میں مسخر ہو گئے تھے‘ لیکن یرد جرد شاہ فارس کی حالت یہ تھی کہ کبھی رے میں ہے‘ کبھی بلخ میں ‘ کبھی مرد میں ہے تو کبھی افہان میں‘ کبھی اصطخر میں ہے تو کبھی جیحون کو عبور کر کے ترکستان میں چلا گیا ہے‘ کبھی چین میں ہے کبھی پھر فارس کے اضلاع میں آ گیا ہے‘ غرض اس کے ساتھ کئی ہزار ایرانیوں کی جمعیت تھی‘اور وہ اپنی خاندانی عظمت اور ساسانی اقتدار و بزرگی کی بدولت لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہو جاتا اور لوگ بھی اس توقع میں کہ شاید اس کا ستارہ اقبال پھر طلوع ہو اس کے ساتھ ہو جاتے تھے‘ یہی سب سے بڑی وجہ تھی کہ ایران کے اکثر صوبوں‘ ضلعوں اور شہروں میں کئی کئی مرتبہ بغاوت ہوئی اور مسلمان سرداروں نے اس کو بار بار فرو کیا۔ اس مرتبہ یعنی ۳۱ ھ میں یزد جرد چین و ترکستان کی طرف سے ایک جمعیت کے ساتھ نواح بلخ میں آیا‘ یہاں اس نے بعض شہروں پر چند روز قبضہ حاصل کر لیا‘ لیکن اس کے اقبال کی نحوست نے اس کو وہاں سے ناکام فرار ہونے اور مسلمانوں کی قید میں پڑنے کے ڈر سے بھاگ کر ایک پن چکی والے کی پناہ میں جانے پر مجبور کیا‘ پن چکی والے نے اس کے قیمتی لباس کے لالچ میں جب کہ وہ سو رہا تھا قتل کر دیا‘ اور لباس و زیور اور ہتھیار وغیرہ اتار کر اس کی لاش کو پانی میں ڈال دیا‘ یہ واقعہ نواح مرو میں مقام مرغاب کے متصل ۲۳ اگست ۶۵۱ء کو وقوع پذیر ہوا۔