تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے بعد وہ انگوٹھی فاروق اعظم کے پاس رہی‘ فاروق اعظم نے جب کہ انتخاب خلیفہ کا کام اصحاب شوریٰ کے سپرد کیا وہ انگوٹھی ام المومنین سیدنا حفصہ رضی اللہ عنہ کو سپرد کر دی کہ جو شخص خلیفہ منتخب ہو اس کو پہنچا دی جائے‘ جب سیدنا عثمان غنی خلیفہ منتخب ہوئے تو سیدنا حفصہ رضی اللہ عنہ نے وہ انگشتری ان کی خدمت میں پہنچا دی‘ اسی سال یعنی ۳۰ ھ میں مدینہ سے دو میل کے فاصلہ پر قباء میں ایک کنویں کے اندر جس کا نام بیراریس ہے وہ انگشتری سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے گر گئی‘ اس کنویں کا تمام پانی سینچ دیا گیا اور انگوٹھی کے لیے بڑی ہی تلاش و کوشش کی گئی لیکن وہ کہیں ہاتھ نہ آئی‘ خاتم نبوی کے اس طرح غائب ہو جانے سے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو سخت ملال ہوا‘ اسی وقت سے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ پر حادثات و فتن کا نزول شروع ہوا‘ سیدنا عثمان غنی نے اس انگوٹھی کے گم ہو جانے پر ایک اور انگوٹھی بالکل اسی نمونے اور اسی شکل و شمائل کی بنوائی تھی۔ اسی سال جب مسجد نبوی میں نمازیوں کی کثرت ہوئی اور جمعہ کے دن ایسی کثرت ہونے لگی کہ اذان کی آواز سب نمازیوں تک پہنچنی دشوار ہوئی تو سیدنا عثمان غنی نے حکم دیا کہ موذن بلند مقام پر چڑھ کر خطبہ کی اذان سے پہلے ایک اور اذان دیا کریں۔۱؎ اس طرح جمعہ کے دن دو اذانیں ہونے لگیں‘ اسی سال سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی عراق و شام کی جائیدادیں فروخت کر کے مدینہ‘ مکہ‘ طائف وغیرہ میں جائیداد دیں خرید لیں‘ چناں چہ اکثر صحابہ رضی اللہ عنھم نے اس پر عمل بھی کیا۔ ۱؎ صحیحبخاریکتابالجمعہحدیث۹۱۲دوسری اذان مدینہ کے ایک مقام زوراء پر دی جاتی تھی۔ فتح طبرستان سعید بن العاص رضی اللہ عنہ نے کوفہ کی گورنری پر مامور ہو کر اور کوفہ پہنچ کر ایک لشکر مرتب کیا‘ اس لشکر میں سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ ‘ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ‘ ابن عمرو‘ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ‘ حذیفہ بن الیمان وغیرہ بھی شامل تھے‘ اس لشکر کے ساتھ سعید بن العاص رضی اللہ عنہ نے طبرستان پر حملہ کر کے طبرستان و جرجان کے تمام علاقے اور مشہور شہروں کو فتح کر لیا اور یزید بن المہلب کو قومس کی طرف روانہ کیا۔ اشاعت قرآن مجید سیدنا حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ جب بصرہ‘ کوفہ‘ رے ‘ شام وغیرہ ہوتے ہوئے مدینہ منورہ میں واپس تشریف لائے تو انہوں نے کہا کہ یہ عجیب بات ہے کہ عراق والے قرآن مجید کو ایک اور قرات پر پڑھتے اور شام والے کسی دوسری قرات کو پسند کرتے ہیں‘ بصرہ والوں کی قرات کوفہ والوں سے اور کوفہ والوں کی قرات فارس والوں سے الگ ہے‘ مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ سب کو ایک ہی قرات پر جمع کیا جائے‘ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام کو جمع کر کے مجلس مشاورت منعقد کی‘ سب نے حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ کی رائے کو پسند کیا‘ اس کے بعد سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے سیدنا حفصہ رضی اللہ عنہ کے پاس سے قرآن مجید کا وہ نسخہ منگوایا جو خلافت صدیقی میں سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ کے زیر اہتمام