تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اللہ علیہ و سلم کو نام لے کر نہیں‘ بلکہ الصادق یا الامین کہہ کر پکارتے تھے‘ تمام ملک عرب میں ایک آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہی کی ذات تھی جو الصادق یا الامین کی مشار الیہ سمجھی جاتی تھی۔ اور انہیں ناموں سے لوگ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو پہچانتے‘ اور یاد کرتے تھے‘ مسز اینی بیسنٹ ہندوستان میں تھیوسوفیکل سوسائٹی کی پیشوا اور بڑی مشہور انگریز عورت ہے وہ لکھتی ہے کہ:۔ پیغمبر اعظم (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ) کی جس بات نے میرے دل میں ان کی عظمت و بزرگی قائم کی ہے وہ ان کی وہ صفت ہے جس نے ان کے ہم وطنوں سے الامین (بڑا دیانتدار) کا خطاب دلوایا‘ کوئی صفت اس سے بڑھ کر نہیں ہو سکتی اور کوئی بات اس سے زیادہ مسلم اور غیر مسلم دونوں کے لیے قابل اتباع نہیں‘ ایک ذات جو مسلم صدق ہو اس کے اشرف ہونے میں کیا شک ہو سکتا ہے ایسا ہی شخص اس قابل ہی کہ پیغام حق کا حامل ہو‘‘ تجدید حلف الفضول کسی پرانے زمانہ میں ملک عرب کے بعض شخصوں نے مل کر آپس میں یہ عہد کیا تھا کہ ہم ہمیشہ ۱؎ سیرت ابن ہشام‘ صفحہ ۹۸۔ ۲؎ سیرت ابن ہشام‘ صفحہ ۹۸‘ ۹۹۔ مظلوم کی طرفداری کریں گے اور ظالم کا مقابلہ کریں گے‘ اس جماعت میں جس قدر اشخاص شامل تھے اتفاقاً ان سب کے ناموں میں فضل کا لفظ آتا تھا اسی لیے ان کے اس عہد کو حلف الفضول کے نام سے تعبیر کرنے لگے یہ جماعت اب ملک عرب میں باقی نہ رہی تھی مگر اس کا تذکرہ لوگوں کی زبان پر آ جاتا تھا۔ حرب فجار کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا زبیر بن عبدالمطلب کے دل میں یہ تحریک پیدا ہوئی کہ اس تحریک کو پھر از سر نو تازہ کیا جائے۔ چنانچہ بعض اشخاص نے عبداللہ بن جدعان کے مکان پر جمع ہو کر قسم کھائی کہ ہم ہمیشہ ظالم کا مقابلہ کریں گے اور مظلوم کی مدد کریں گے۔ اس قسم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی شریک تھے کچھ مدت بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اکثر قبیلوں کے سرداروں اور سمجھدار لوگوں کو ملک کی بدامنی‘ مسافروں کے لٹنے اور ضعیفوں اور غریبوں پر زبردستوں اور امیروں کے ظلم کرنے کا حال بیان فرما کر ان سب باتوں کی اصلاح کے لیے آمادہ کیا‘ بالآخر ایک انجمن قائم ہو گئی جس میں بنو ہاشم‘ بنو المطلب ‘ بنو اسد‘ بنو زہرہ‘ بنو تیمم شامل ہوئے اس انجمن کے ہر ایک ممبر کو یہ اقرار کرنا پڑتا تھا کہ (۱) ہم ملک سے بدامنی دور کریں گے (۲) مسافروں کی حفاظت کیا کریں گے (۳) غریبوں کی امداد کیا کریں گے (۴) زبردستوں کو ظلم کرنے سے روکیں گے اس انجمن کے ذریعہ مخلوق خدا کو بہت کچھ منافع پہنچنے لگا تھا۔ زمانہ نبوت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرمایا کرتے تھے کہ اگر آج بھی کوئی اس معاملہ کے نام سے مجھ کو بلائے اور مدد طلب کرے تو میں اس کو جواب دوں گا۔۱؎ قبائل قریش میں آپ کا حکم مقرر ہونا خانہ کعبہ میں کسی بداحتیاطی کے سبب آگ لگ گئی تھی جس کے صدمہ سے دیواریں