تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اسلام دجلہ کی طوفانی موجوں کا مقابلہ کرتا ہوا دوسرے کنارے کی طرف متوجہ ہوا‘ یہ سیلاب لشکر جب نصف سے زیادہ دریا کو عبور کر چکا تو اس طرف سے ایرانی تیر اندازوں نے تیر بازی شروع کی ادھر سے عاصم اور ان کی جماعت نے ایرانی تیر اندازوں پر اس زور و قوت کے ساتھ تیر پھینکے کہ بہت سے ایرانی مقتول و مجروح ہوئے اور اس بلائے بے درماں سے اپنی جان بچانے کی تدبیروں میں مصروف ہو کر لشکر اسلام کو عبور ۱؎ ہم اللہ سے ہی مدد چاہتے ہیں اور اسی پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اللہ ہمارے لیے کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔ نہ کسی میں (نیکی کرنے کی) قوت ہے نہ (برائی سے بچنے کی) طاقت مگر اللہ کی توفیق سے‘ جو سب سے بلند مرتبہ اور بڑائی والا ہے۔‘‘ دریا سے نہ روک سکے مسلمانوں نے اس طرف پہنچ کر ایرانیوں کو قتل کرنا شروع کیا۔ فتح مدائن یزدجرد مسلمانوں کے پہنچنے سے پہلے ہی اپنے اہل و عیال اور خزانوں کو مدائن سے روانہ کر چکا تھا‘ تاہم قصرا بیض (شاہی محل) اور دارالسلطنت میں مال و دولت کی کمی نہ تھی‘ اسلامی لشکر کے دریا عبور کر لینے کا حال سن کر یزدجرد بھی مدائن سے چل دیا‘ مسلمانوں نے شہر کی مختلف سمتوں سے شہر میں داخل ہونا شروع کیا‘ خود باشندگان شہر نے شاہی محلات کی لوٹ مار مسلمانوں کے پہنچنے اور شہر میں داخل ہونے سے پہلے شروع کر کر دی تھی‘ سیدنا سعد قصرا بیض میں داخل ہوئے اور ان کی زبان سے بے اختیار یہ آیتیں نکلیں۔ {کَمْ تَرَکُوْا مِنْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ ٭ وَزُرُوعٍ وَّمَقَامٍ کَرِیمٍ ٭ وَنَعْمَۃٍ کَانُوْا فِیْہَا فَاکِہِیْنَ ٭ کَذٰلِکَ وَاَوْرَثْنَاہَا قَوْمًا آخَرِیْنَ } (الدخان : ۴۴/۲۵ تا ۲۸) ’’وہ لوگ کتنے ہی باغ اور چشمے اور کھیتیاں اور عمدہ مکانات اور آرام کے سامان جن میں رہا کرتے تھے چھوڑ گئے (یہ قصہ) اسی طرح واقع ہوا اور ہم نے ان (چیزوں) کا مالک ایک دوسری قوم کو بنا دیا ۔‘‘ پھر سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے وہیں ایک سلام سے آٹھ رکعتیں صلوۃ الفتح کی پڑھیں‘ یہ جمعہ کا روز تھا‘ قصر ابیض میں جس جگہ کسریٰ کا تخت تھا وہاں ممبر رکھا گیا اور اسی قصر میں جمعہ ادا کیا گیا‘ یہ پہلا جمعہ تھا جو دارالسلطنت ایران میں ادا کیا گیا‘ اس محل شاہی میں جس قدر تصاویر و تماثیل تھیں وہ علیٰ حالہ قائم رہیں‘ نہ سیدنا سعد نے ان کو توڑا پھوڑا نہ وہاں سے جدا کیا‘ بوجہ نیت اقامت اس قصر میں نماز کو قصر بھی نہیں کیا گیا۔ زہرہ بن حیوۃ کو ایرانیوں کے تعاقب میں نہروں کی جانب روانہ کیا گیا‘ مال غنیمت کے فراہم کرنے پر عمروبن مقرن کو اور اس کی تقسیم پر سلیمان بن ربیعہ باہلی کو مقرر کیا گیا۔ مال غنیمت میں شہنشاہ ایران کی بہت سی نادر روزگار چیزیں مسلمانوں کے ہاتھ آئیں چاندی سونے اور جواہرات کی بہت سی مورتیں‘ کسریٰ کا شاہی لباس‘ اس کا زرنگار تاج‘ اس کی زرہ اور اس قسم کی بہت سی چیزیں مسلمانوں نے ان بھاگنے والوں سے چھینیں جو ان چیزوں کو لے لے کر ایوان شاہی سے بھاگتے تھے‘ ایوان شاہی کے خزانے اور عجائب خانے میں سے خاقان چین‘ قیصر روم‘ داہر شاہ ہند‘ بہرام گور‘ سیاوش‘ نعمان بن منذر‘ کسریٰ ہرمز فیروز کے خود‘ زرہیں‘ تلواریں اور خنجر دستیاب ہوئے‘ جو عجائبات