تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
آدمی بھیجا کہ اصل حالات معلوم کر کے آئیں اور یہاں آ کر بیان کریں‘ چنانچہ محمد بن مسلمہ کوفہ کی جانب‘ اسامہ بن زید بصرے کی جانب‘ عبداللہ بن عمر شام کی جانب روانہ ہوئے‘ اسی طرح ہر ایک چھوٹے یا بڑے صوبے کی طرف ایک ایک تفتیش کنندہ روانہ ہوا‘ چند روز کے بعد سب نے بیان کیا کہ ہم نے تو عاملوں اور والیوں میں کسی قسم کی کوئی برائی نہیں دیکھی‘ سب اپنے اپنے علاقے میں پوری توجہ اور کوشش کے ساتھ مصروف کار ہیں‘ اور کوئی خلاف شرع حرکت بھی ان سے سرزد نہیں ہوتی‘ نہ رعایا میں سے کوئی شریف و ذی عقل شخص ان کا شاکی ہے‘ یہ کیفیت اہل مدینہ نے سنی اور قدرے ان کی تسکین ہوئی‘ لیکن چند ہی روز کے بعد پھر وہی کیفیت پیدا ہو گئی‘ اب یہ وہ زمانہ تھا کہ حج کا موسم قریب آ گیا تھا‘ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ایک منشور عام ہر شہرو قصبے میں عام رعایا کے نام اس مضمون کا بھیجاکہ ’’میرے پاس اس قسم کی خبریں پہنچ رہی ہیں کہ میرے عاملوں سے رعایا کو کچھ نقصان پہنچ رہا ہے اور وہ ظلم و ستم کا برتائو کرتے ہیں لہذا میں نے تمام عاملوں کے پاس احکام روانہ کر دئیے ہیں کہ وہ اس مرتبہ حج میں ضرور شریک ہوں‘ پس جس شخص کو میرے کسی عامل سے کچھ شکایت ہو وہ حج کے موقعہ پر آ کر اپنی شکایت میرے سامنے پیش کرے اور اپنا حق مجھ سے یا میرے عامل سے بعد تصدیق وصول کرلے‘‘۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا فرمان ایک ایک حکم ہر ایک عامل کے نام بھی پہنچ گیا کہ ضرور شریک حج ہونا چاہیے چنانچہ عبداللہ بن سعد والی مصر‘ معاویہ ابن ابی سفیان والی شام‘ عبداللہ بن عامر وغیرہ تمام عمال مکہ معظمہ میں حج کے موقعہ پر جمع ہو گئے‘ عبداللہ بن سبا کی تجویز کے موافق لوگ ہر ایک صوبے اور ہر ایک مرکز سے روانہ ہوئے اور وہ بجائے اس کے کہ مکہ معظمہ میں آتے‘ مدینہ منورہ میں آ کر جمع ہو گئے‘ حج کے ایام میں سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اعلان کرایا کہ تمام عامل موجود رہیں جس کا جی چاہے آ کر اپنی شکایت پیش کرے‘ مگر کوئی شخص کسی عامل کی شکایت لے کر نہ آیا۔ خلیفہ وقت کی مجلس میں جو لوگ موجود تھے وہ اس فساد و فتنے کے مٹانے کی نسبت باہم مشورہ کرنے لگے اور اس طرح ان کی باتوں نے طول کھینچا‘ سیدنا عثمان غنی نے سب کو مخاطب کر کے فرمایا کہ یہ فتنہ تو ضرور برپا ہونے والا ہے اور اس کا دروازہ عنقریب کھل جائے گا‘ میں یہ نہیں چاہتا کہ فتنے کے اس دروازے کے کھولنے کا الزام مجھ پر عائد ہو‘ خدائے تعالیٰ خوب آگاہ ہے کہ میں نے لوگوں کے ساتھ سوائے بہتری اور بھلائی کے اور کچھ نہیں کیا‘‘ اس کے بعد سب خاموش ہو گئے اور حج سے فارغ ہو کر خلیفہ وقت مدینہ منورہ میں آ گئے یہاں آ کر سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کو جو باہر سے آئے تھے ایک جلسہ میں طلب کیا‘ اور اسی جلسہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ ‘ سیدنا طلحہ اور سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کو بھی بلوایا‘ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی مکہ سے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ساتھ آئے تھے اور وہ بھی اس وقت موجود تھے‘ اس مجلس میں سب سے پہلے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور حمدو نعت کے بعد کہا کہ ’’آپ سب حضرات جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اصحاب اور صاحب حل و عقد ہیں اور اس امت کے سرپرست ہیں‘ آپ حضرات نے اپنے دوست یعنی عثمان غنی کو بلا رو رعایت خلیفہ منتخب کیا‘ اب وہ بوڑھے ہو گئے ہیں‘ ان کی نسبت قسم قسم کی باتیں