تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہوا تو بلوائی لوگوں کا بڑا حصہ اس سبائی جماعت سے الگ تھا۔ یہ لوگ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہے اور اپنی کارگذاریوں اور جاں فشانیوں کی بدولت ان کو دربار خلافت میں کافی رسوخ بھی حاصل ہو گیا‘ کوفہ میں جب سیدنا علی نے اقامت اختیار فرمائی تو کوفیوں کے اعتبار و اعتماد نے اور بھی زیادہ ترقی کی‘ اس طرح قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں نہ صرف پناہ گزیں بلکہ با اعتبار ہونا اور بھی باعث اس کا ہوا کہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو قوت و طاقت حاصل ہوئی‘ کیونکہ جو لوگ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص لینا ضروری سمجھتے تھے‘ وہ جب ان قاتلین میں سے بعض کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں باعزت دیکھتے تھے تو باوجود اس کے کہ ان کو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت تسلیم تھی‘ پھر بھی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ شامل ہو جاتے تھے‘ کیونکہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے خون عثمان رضی اللہ عنہ کا بدلہ لینے کے لیے علم مخالفت بلند کیا تھا۔ امارت مصراور محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے وقت مصر کی حکومت سے عبداللہ بن سعد کو برطرف کر کے محمد بن ابی حذیفہ رضی اللہ عنہ مصر پر قبضہ کر چکے تھے‘ جیسا کہ اوپر مذکور ہو چکا ہے‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے خلیفہ منتخب ہونے کے بعد ہی قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کو مصر کا عامل بنا کر مدینہ منورہ سے روانہ کر دیا تھا‘ قیس بن سعد اپنے ہمراہ صرف سات آدمیوں کو لے کر روانہ ہوئے‘ اور مصر پہنچتے ہی محمد بن ابی حذیفہ رضی اللہ عنہ کو برطرف کر کے خود وہاں کے حاکم بن گئے‘ مصر میں یزید بن الحراث اور مسلمہ بن مخلد وغیرہ کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو خون عثمان رضی اللہ عنہ کا مطالبہ کر رہے تھے‘ ان لوگوں نے قیس کی بیعت سے اس عذر کے ساتھ انکار کیا کہ ہم کو انتظار کرنے دو‘ کہ خون عثمان رضی اللہ عنہ کا معاملہ کس طرح طے ہوتا ہے‘ جب یہ معاملہ طے ہو جائے گا اس وقت ہم بیعت کر لیں گے‘ اور جب تک بیعت نہیں کرتے اس وقت تک خاموش ہیں‘ تمہاری مخالفت نہ کریں گے‘ قیس بن سعد رضی اللہ عنہ نے اپنے اخلاق اور اپنی قابلیت سے مصر میں پورے طور پر قوت حاصل کر لی اور ان کے اخلاق نے خوب ترقی حاصل کی۔ جب جنگ جمل ختم ہو گئی اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کوفہ کی طرف تشریف فرما ہوئے تو سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو فکر ہوئی‘ کہ اب ہمارے اوپر حملہ آوری ہو گی‘ ساتھ ہی ان کو اس بات کا بھی خیال تھا‘ کہ مصر میں قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کو بخوبی قوت و قبولیت حاصل ہے‘ اور وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بھیجے ہوئے اور ان ہی کے ہمدرد و خیر خواہ ہیں‘ پس سیدنا علی رضی اللہ عنہ جب کوفہ کی طرف سے حملہ آور ہوں گے‘ تو وہ ضرور قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کو حکم دیں گے‘ کہ تم دوسری طرف مصر سے فوج لے کر حملہ کرو‘ جب دو طرف سے ملک شام پر حملہ ہو گا تو بڑی مشکل پیش آئے گی۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو قدرتاً اپنے آپ کو طاقتور بنانے کی مہلت بخوبی مل گئی تھی‘ دوسرے انہوں نے اس مہلت سے فائدہ اٹھانے میں کوئی کوتاہی نہیں کی‘ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا خون آلود پیراہن اور ان کی بیوی کی کٹی ہوئی انگلیاں ان کے پاس پہنچ گئی تھیں اور وہ روزانہ اس خون آلود پیرہن اور ان کی انگلیوں کو جامع