تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نے کہا کہ ان دونوں نے وعدہ کر لیا ہے کہ تمہارے منشاء کے خلاف کچھ نہ کریں گے‘ لیکن وہاں ایک اور حادثہ پیش آ گیا‘ بنو حارثہ کے چند نوجوان آ گئے اور وہ اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کو قتل کرنا چاہتے تھے‘ یہ سنتے ہی سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور تلوار لے کر وہاں پہنچے دیکھا تو اسعد رضی اللہ عنہ اور مصعب رضی اللہ عنہ دونوں اطمینان سے بیٹھے ہوئے ہیں‘ یہ دیکھ کر سعد رضی اللہ عنہ کو شبہ گذرا کہ اسید نے مجھ کو دھوکہ سے یہاں بھیجا ہے کہ میں بھی ان کی باتیں سنوں‘ یہ خیال آتے ہی سعد رضی اللہ عنہ نے دونوں کو گالیاں دینی شروع کیں‘ او اسعد رضی اللہ عنہ سے کہا کہ مجھ کو صرف رشتہ داری کا خیال ہے ورنہ تمہاری کیا مجال تھی کہ ہمارے محلہ میں آ کر لوگوں کو بہکاتے‘ مصعب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ بیٹھ جائیے میں کچھ عرض کرتا ہوں اگر میری بات معقول ہو تو آپ قبول فرمائیے ورنہ رد کر دیجئے۔ سعد رضی اللہ عنہ اپنی تلوار رکھ کر بیٹھ گئے‘ مصعب رضی اللہ عنہ نے سعد رضی اللہ عنہ کو بھی وہی باتیں سنائیں جو اسید رضی اللہ عنہ کو سنا چکے تھے ‘ سعد رضی اللہ عنہ بھی اسی وقت مسلمان ہو گئے اور واپس آتے ہی اپنے قبیلے کے تمام لوگوں کو جمع کر کے کہا کہ تم مجھ کو کیا سمجھتے ہو سب نے ایک زبان ہو کر کہا کہ آپ ہمارے سردار ہیں اور آپ کی رائے ہمیشہ قابل عمل ہوتی ہے۔ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب تک تم مسلمان نہ ہو جائو میرے ساتھ تمہارا کوئی تعلق نہیں‘ یہ سنتے ہی تمام بنو عبدالاشہل مسلمان ہو گئے‘ ۱؎ اسی طرح مدینہ کے دوسرے قبائل میں بھی اسلام پھیلتا رہا۔ یہ نبوت کا تیرہواں سال تھا۔ ادھر معصب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو کامیابی حاصل ہو رہی تھی‘ ادھر مکہ میں قریش کے مظالم مسلمانوں کے لئے ناقابل برداشت ہوتے جاتے تھے‘ ۱۳ نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کا ماہ ذی الحجہ آیا تو مدینہ سے مصعب بن ۱؎ سیرت ابن ہشام ص ۲۱۳ تا ۲۱۵۔ عمیر رضی اللہ عنہ بہتر ۷۲ مرد اور دو عورتوں کے مسلم قافلہ کو لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوئے‘مدینہ کے مسلمانوں نے اس قافلہ کو اس لئے بھی بھیجا تھا تاکہ زیارت نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے مشرف ہو کر آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں مدینہ والوں کی طرف سے مدینہ میں تشریف لانے کی درخواست پیش کرے۔ بیعت عقبہ ثانیہ آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم کو اس قافلہ کے آنے کی اطلاع مل چکی تھی‘ رات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم مکان سے نکلے‘ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ اگرچہ اب تک مسلمان نہیں ہوئے تھے‘ لیکن ہمیشہ سے ان کو آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ہمدردی تھی‘ قریش کی عام مخالفت میں بھی ان کے در پردہ ہمدردانہ طرز عمل سے آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم واقف تھے‘ اتفاقاً راستہ میں مل گئے‘ آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو اپنے ہمراہ لے لیا اور اپنے ارادہ سے مطلع فرما دیا تھا‘ چنانچہ دونوں رات کی تاریکی میں وادی عقبہ میں پہنچے‘ وہاں مدینہ سے آیا ہوا مومنوں کا قافلہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا منتظر تھا۔ اس جگہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ مدینہ سے صرف مسلمان ہی نہیں آئے تھے‘ بلکہ