تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بالآخر یہ فیصلہ ہوا کہ نبی ہاشم اور نبی عبدالمطلب اگرچہ سب کے سب مسلمان نہیں ہوئے لیکن وہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی حمایت اور رعایت سے باز نہیں آتے لہذا اول ابوطالب سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم (اپنے بھتیجے) کو ہمارے حوالے کر دیں‘ اگر وہ انکار کریں تو بنو ہاشم اور نبی عبدالمطلب سے شادی بیاہ میل ملاقات‘ سلام پیام سب ترک کر دیا جائے‘ کوئی چیز ان کے ہاتھ فروخت نہ کی جائے اور کھانے پینے کی کوئی چیز ان کے پاس نہ پہنچنے دی جائے‘ اور اس سخت اذیت رساں مقاطعے کو اس وقت تک جاری رکھا جائے جب تک محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو ہمارے سپرد نہ کریں۔ چنانچہ اس مقاطعہ کے متعلق ایک عہد نامہ لکھا گیا‘ ۱؎ تمام رئوساء قریش نے اس پر قسمیں کھائیں اور عہد نامہ پر دستخط کئے‘ یہ دستخط شدہ عہد نامہ خانہ کعبہ میں لٹکا دیا گیا اور مقاطعہ شروع ہو گیا‘ ابوطالب تمام بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب کو لے کر مکہ کے قریب ایک پہاڑی درے میں جا کر محصور ہو گئے ‘ جس قدر مسلمان تھے وہ بھی ان کے ساتھ اسی درے میں جو شعب ابی طالب کے نام سے مشہور ہے چلے گئے‘ بنو ہاشم سے صرف ایک شخص ابولہب اس قیدونظر بندی سے آزاد رہا‘ وہ کفار قریش کے ساتھ تھا‘ غلہ وغیرہ جو کچھ بنو ہاشم اپنے ساتھ لے گئے تھے وہ جلد ختم ہو گیا‘ اور ان لوگوں کو کھانے پینے کی بڑی تکلیف ہونے لگی‘ درے میں جانے کا صرف ایک تنگ راستہ تھا کوئی شخص باہر نہیں نکل سکتا تھا۔ تین برس تک بنو ہاشم اور مکہ کے مسلمانوں نے بڑی بڑی تکلیفیں اور اذیتیں شعب ابوطالب میں برداشت کیں جن کے تصور سے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں‘ صرف ایام حج میں یہ محصور لوگ باہر نکلتے تھے اور عرب کے دستور کے موافق ان ایام میں جو امن عام ہوتا تھا اس سے فائدہ اٹھاتے اور اپنے کھانے پینے کا سامان خرید کر ذخیرہ کر لیتے تھے‘ انہیں ایام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی ۱؎ صحیح بخاری کی ایک روایت کے مطابق عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کے بعد کفار مکہ نے ان کو قتل کرنے کا پروگرام مرتب کیا اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے گھر کا محاصرہ بھی کر لیا۔ لیکن ایک با اثر شخص کے کہنے پر وہ اس ارادہ کو تکمیل تک پہنچانے سے رک گئے‘ جس نے ان کو کہا تھا کہ اگر تم نے عمر کو قتل کر دیا تو عمر کے وارثین اور مسلمان تمہیں بھی زندہ نہ چھوڑیں گے۔ ملاحظہ ہو : صحیحبخاری۔کتابمناقبالانصارحدیث۳۸۶۴و۳۸۶۵۔ ۲؎ ابن قیمa کے قول کے مطابق یہ عہد نامہ بغیض بن عامر بن ہاشم نے لکھا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس پر بد دعا کی اور اس کا ہاتھ شل ہو گیا۔ (زاد المعاد ۲: ۴۶) باہر نکلتے اور باہر سے آئے ہوئے لوگوں میں تبلیغ اسلام کرتے تھے‘ لیکن قریش آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ساتھ لگے رہتے اور جہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم جاتے لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی باتیں سننے سے منع کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیوانہ اور جادو گر بتا کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف کسی کو متوجہ نہ ہونے دیتے تھے۔ شعب ابوطالب کی سہ سالہ سختیوں کا تصور کرنے سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ قبیلوں کی حمیت اور خاندان و نسل کا پاس و لحاظ بھی ایک بڑی چیز ہے اور اسی نے بنو ہاشم کے ان لوگوں کو جو مسلمان نہیں ہوئے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ساتھ دینے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی مدد کرنے پر مجبور کر دیا تھا‘ دوسری طرف