تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
السلام صدیقہ پر بھی اسی قسم کا بہتان یہودیوں نے باندھا تھا‘ وہ بھی خائب و خاسر ہوئے اور اس امت کی صدیقہ رضی اللہ عنھا پر بہتان باندھنے والوں کا انجام بھی خسران و ہلاکت ہی ہوا۔ اس سفر میں منافقوں نے جو شرارتیں کیں ان کا علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ہوتا رہا‘ ابھی مدینہ منورہ میں داخل نہ ہوئے تھے کہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن ابی منافق کی بدکلامیوں کا ذکر کر کے اور گواہیاں گذران کر استدعا کی کہ اس منافق کے قتل کا حکم صادر فرمایا جائے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا عبداللہ بن ابی چونکہ بظاہر اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے اس لیے اگر اس کو قتل کیا گیا تو لوگ کہیں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اپنے دوستوں کو قتل کرنے لگے‘ عبداللہ بن ابی کا بیٹا سچا مسلمان تھا جن کا نام عبداللہ بن عبداللہ بن ابی تھا‘ عبداللہ بن عبداللہ کو جب معلوم ہوا کہ میرا باپ کشتنی و گردن زدنی ثابت ہو چکا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ عبداللہ بن ابی یعنی میرے باپ کے قتل کرنے کی خدمت میرے سپرد کی جائے‘ تاکہ میں اس کا سر کاٹ کر لائوں۲؎ اور یہ ثابت ہو جائے کہ اسلام باپ ۱؎ صحیحبخاریکتابالمغازیحدیث۴۱۴۱۔صحیحمسلمکتابالتوحیدبابفیالحدیثالافک ۱؎ سیرت ابن ہشام ص ۴۴۰۔ سے زیادہ قیمتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ نہیں میں عبداللہ بن ابی کو قتل کرنا نہیں چاہتا‘ یہاں تک کہ مدینہ منورہ میں داخل ہونے کے وقت عبداللہ بن ابی کے بیٹے نے خود باپ کو مدینے کے اندر داخل ہونے سے روک دیا اور کہا کہ تو منافق ہے اس لیے تجھ کو مدینہ میں داخل نہ ہونے دوں گا‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو جب معلوم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عبداللہ بن ابی کے متعلق حکم دیا کہ اس کو مدینہ میں آنے دو۔۱؎ اسیران جنگ کی رہائی بنی المصطلق کے سردار حارث کی بیٹی جویریہ( رضی اللہ عنھا )‘ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے حصے میں آئیں‘ حارث چند روز بعد خود مدینے میں آیا اور اپنی بیٹی کو آزاد کرانے کی خواہش ظاہر کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جویریہ رضی اللہ عنھا کو فدیہ دے کر رہا کرا دیا۔ جویریہ رضی اللہ عنھا نے باپ کے ہمراہ جانے کے مقابلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں رہنا پسند کیا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جویریہ رضی اللہ عنھا کے منشاء کے موافق اور حارث رضی اللہ عنہ کی رضا مندی سے جویریہ رضی اللہ عنھا کے ساتھ نکاح کر لیا‘ اس نکاح کا نتیجہ یہ ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے بنی المصطلق کے تمام اسیروں کو یہ کہہ کر آزاد کر دیا کہ جو قبیلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا رشتہ دار بن گیا ہے ہم اس کو قیدی یا غلام نہیں رکھ سکتے‘ ساتھ ہی تمام مال غنیمت بھی واپس کر دیا‘ اس طرح ایک قبیلہ کے ساتھ اس نکاح کی وجہ سے دشمنی کی جگہ محبت پیدا ہو گئی۔