تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
شیطانی طلسم ٹوٹا کہ حکومت و فرماں روائی کے لیے وراثت قابل لحاظ ہے۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا انتخاب بھی جائز استحقاق اور اسی صحیح اصول پر ہوا‘ ان کے بعد سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا انتخاب اگرچہ وراثت اور نسب کے تعلقات کا لحاظ کئے بغیر ہوا مگر مسلمانوں کے بعض طبقات اور بعض افراد کو اس انتخاب میں قدرے انقباض رہا اور خود سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اپنے رشتہ داروں اور ہم قبیلہ لوگوں کی رعایت زیادہ رکھی چنانچہ ان کا زمانہ فتن سے خالی نہ رہا۔۱؎ پس کہا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بحیثیت رسول جس طرح ۲۳ سال تک اپنی زندگی کا نمونہ نوع انسان کی زندگیوں کو سدھارنے کے لیے پیش کیا اسی طرح (۱ ھ) سے (۲۳ ھ) تک یعنی ۲۳ سال تک سلطنت و فرماں روائی کا نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا‘ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی کے ۲۳ سال نوع انسانی کے لیے قابل اقتداء ہیں اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مدنی زندگی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت‘ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے کل ۲۳ سال سلاطین عالم کے لیے قابل عمل ہیں۔ خلافت راشدہ کے بعد انسانی کمزوری اور شیطانی فریب کاری نے پھر وراثت کے تعلقات کو حصول سلطنت کے لیے ضروی قرار دے دیا اور حکومت و سلطنت بجائے اس کے کہ مستحق اور قابل افراد کا حصہ ہوتی مخصوص خاندان کا حق سمجھی جانے لگی اور لائق فرماں روائوں کے بعد ان کے نالائق بیٹے تخت حکومت پر جلوہ فرما نظرآنے لگے اور ان نالائقوں سے تخت سلطنت پاک کرنے کے لیے لوگوں کو بڑی بڑی محنتیں اور اذیتیں برداشت کرنی پڑیں۔ بالآخر ان مصیبتوں سے تنگ آ کر لوگوں نے اس جمہوریت کا سہارا پکڑا جو فرانس و امریکہ وغیرہ کے ممالک میں آج کل نظر آتی ہے‘ حالانکہ ۱؎ جناب عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر اب ہم اعتراض نہیں کر سکتے۔ کیونکہ صحابہ رضی اللہ عنھم کو ہدف تنقید بنانے اور ان پر طعن و تشنیع کرنے سے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سختی سے منع فرمایا ہے۔ ہمارے لیے خاموشی ہی بہتر اور ضروری ہے۔ عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں یا ان کے بعد اگر فتنے برپا ہوئے تو وہ دشمنان اسلام اور منافقین کی سازشوں کی وجہ سے برپا ہوئے۔ ان میں خلفاء رضی اللہ عنھم یا صحابہ رضی اللہ عنھم کا کوئی قصور نہیں۔ دشمنان اسلام اور منافقین تو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات مبارکہ میں بھی اسلام کے خلاف اپنی ریشہ دوانیوں اور سازشوں میں مصروف تھے اور منافقین نے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں کئی فتنے برپا کرنے کی کوشش کیں جیسے واقعہ افک! تو کیا (معاذ اللہ) جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا دور مبارک بھی شکوک و شبہات وغیرہ کا شکار ہو جائے گا یقینا ہرگز نہیں! جس طرح وراثتی شخصی سلطنتیں نوع انسانی کے لیے مضر تھیں اسی طرح یہ جمہوریتیں بھی نوع انسانی کے لیے مفید و بابرکت نہیں ہو سکتیں‘ فطرت انسانی کے عین موافق اور ہر طرح سے مفید وبابرکت وہی طرز حکومت ہے جس کا نمونہ سنہ ہجری کی ابتدائی چار صدیوں نے پیش کیا تھا اور وہ جمہوری شخصی سلطنتوں کی ایک درمیانی حالت ہے۔ جمہوری سلطنت جمہوری حکومت۱؎ میں تین یا پانچ سال کی مدت کے لیے ایک عام شخص کو عام رعایا اپنا حکمران منتخب کرتی ہے‘ جس کو صدر جمہوریہ یا پریزیڈنٹ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے‘ اس صدر جمہوریت کو وہ پورے اختیارات حاصل نہیں ہوتے جن کی نوع انسان کے ایک شفیق سلطان کو ضرورت ہے‘ بعض معمولی کاموں میں بھی پریزیڈنٹ کو مجبور